ماحولیاتی لسانیات اور معاصر عہد

یوں تو انسان اور دیگر جانداروں میں کئی امتیازات موجود ہیں لیکن ان میں سے ایک غیر معمولی امتیاز ماحول کو اپنی ضرورت کے مطابق تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے ۔ انسان میں یہ صلاحیت اُس وقت اتنی نمایاں نہیں تھی جب انسان ابھی جنگلوں میں رہایش پذیر تھا۔ زراعت کے آغاز و ارتقا اورترقی نے اسے اس قابل بنا دیا کہ ماحول کے مختلف عوامل اور ان کے مابین تعلق کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ اب سائنسی ایجادات اور صنعتی انقلاب نے انسان اور ماحول کے مابین توازن کو غیر متوازن کر دیا ہے۔ نت نئی مصنوعات، توانائی کے وسائل کا بے دریغ استعمال، تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی، خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور سائنسی ترقی کے دیگر عناصر نے کرۂارض اور حیاتیاتی نظام پر اتنا دباؤ ڈالا ہےکہ انسان نےجنگلات کاٹ کر زرخیز زمینوں کو شہری آبادیوں، طویل سڑکوں، فلک بوس پلازوں، وسیع وعریض مارکیٹوں اور ہوائی اڈوں میں تبدیل کر لیاہے۔ دن بدن ندیاں، نالے، دریا اور سمندر، فیکٹریوں اور شہروں سے خارج ہونے والے فُضلات سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں جانداروں اور پودوں کی کئی اقسام معدوم ہو گئی ہیں اور کچھ معدوم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اس موقع پر انسانی ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ جس عمل کو ہم ترقی سے منسوب کر رہے ہیں کیا وہ صحیح معنوں میں ترقی ہے بھی سہی یا نہیں؟
میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں اب سوال محض ترقی کا نہیں بلکہ پائیدار ترقی کا ہے۔ وسائل کو اس طرح استعمال کریں کہ نہ صرف ہمارے کام آئیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی دستیاب رہیں، دیگر جانداروں کی حق تلفی نہ ہو اور زمینی حیاتیاتی نظام میں بگاڑ پیدا نہ ہو، اس تصور کو ہم تحفظِ ماحول کا نام دے سکتےہیں۔انسانی ترقی اور تحفظِ ماحول کے مابین توازن قائم رکھنا، اکیسویں صدی کے انسان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ کرۂ باد (Atmosphere) اس قدر گرم ہوتا جا رہا ہے کہ یا تو اب زمین گرم ہو کر ریگستان میں بدل جائے گی یا پھر انسان برفانی دور میں چلا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں جہاں اکیسویں صدی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، جینیاتی انجینرنگ اور مصنوعی ذہانت انسان کے لیے نئے سے نئے انکشافات سامنے لا کر انسانی زندگی کو بدل رہی ہے وہیں ایکو سسٹم میں ہونے والے بگاڑ نے بھی جدید انسان کو حساس بنا دیا ہے۔ صنعتی ترقی کے جوش وخروش میں ہم ماحول کو جس طرح خراب کر کے فضائی آلودگی، درجہ حرارت اور آبی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں یہ مسائل ہماری فوری توجہ کے طالب ہیں۔
ماحولیات نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں ادب اور زبان پر بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا ڈسکورسز، پالیسی دستاویزات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زبان پر اثرات کا یہ سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز تقریباً پچاس سال قبل مغربی دنیا میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب آئنر ہاؤجن (Einer Hougen) نے “ماحولیاتی لسانیات” (Ecology of Langue) کے حوالے سے اپنا تحقیقی مقالہ قلم بند کیا تھا جس میں اس نے زبان کو ماحول کے باہمی تعامل سے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ زبان کو الگ تھلگ شے کے طور پر نہیں بلکہ اس کے ماحولیاتی تناظر میں دیکھا جائے۔ ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ زبان اور اس کے بولنے والوں کے درمیان کس طرح کا تعلق موجود ہے اور یہ کہ زبانیں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اور سماجی و ثقافتی حالات کے ساتھ زندہ رہتی ہیں یا ختم ہو جاتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں آئنر ہاؤجن نے زبان کو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور ماحولیاتی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جسے”ماحولیاتی لسانیات“ کی تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
زبان اور ماحول کا رشتہ دوطرفہ ہوتا ہے ایک طرف ماحول زبان کی ساخت، الفاظ اور اسلوب پر اثر انداز ہوتا ہے تو دوسری جانب زبان ماحول کو سمجھنے اور بیان کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مثلاً صحرائی علاقے کے افراد، پانی اور ریت کے لئے مختلف اور متنوع الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ برفانی خطوں میں رہایش پذیر افراد کا برف کے حوالے سے ذخیرہ الفاظ دیگر خطوں کی نسبت زیادہ ہو گا۔ اسی طرح شہری اور دیہاتی ماحول کے ذخیرہ الفاظ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ٹریفک جام، سگنل، چالان، بازار، فلیٹ، پارکنگ، لاری اڈہ، بس سٹاپ، ریستوران اور شاپنگ مال وغیرہ جیسے الفاظ صرف شہری زندگی میں مستعمل ہو سکتے ہیں۔ دیہی زندگی میں ان الفاظ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسی طرح ہل چلانا، دودھ دوہنا، بیج ڈالنا، پانی لگانا، کھاد ڈالنا، سپرے کرنا اور گوبر وغیرہ دیہاتی اور زرعی ماحول کے ذخیرہ الفاظ ہیں جنھیں شہری افراد استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ شہری افراد کو ان میں سے کئی الفاظ کے معانی بھی نہ آتے ہوں۔ کہا جا سکتا ہے کہ زبان ماحول سے اثر لیتی ہے، جب ماحول بدلتا ہے تو الفاظ، محاورے، روزمرہ اور ضرب الامثال بھی بدل جاتی ہیں۔ زبان ماحول کے ساتھ انسانی تعلقات کو بیان کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر تقریباً تمام تہذیبوں میں زمین کو ماں تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے ماحول کے ساتھ احترام اور تحفظ کا رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اب جب انسان نے ترقی کر لی ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت سماجی رشتے بدل گئے ہیں۔ جدید دور میں سماجی اور پیداواری رشتے منافع اور افادے پر استوار ہیں تو اب اسے وسیلہ یا وسائل سمجھا جاتا ہے جس سے استحصال اور تباہی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات عالمی دہشت گردی سے بھی زیادہ خطر ناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔
لسانی تناظر میں ماحولیات پر بات کریں تو زبان اس حوالے سے مثبت کردار ادا کر سکتی ہے کیوں کہ یہ ہمارے سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے طریقے طے کرتی ہے۔ زبان کے توسط سے ماحول دوست اصطلاحات رائج کر کے انسانی سوچ کو ماحول کے حوالے سے حساس بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں تعلیمی ادارے، میڈیا اور حکومتی پالیسیاں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مقامی زبانیں اس حوالے سے پہلے ہی مثبت کردار ادا کر رہی ہیں جہاں پانی، زمین اور زرخیزی کو تقدس حاصل ہے۔ لوک گیتوں میں درختوں، فصلوں اور پھلوں کے بارے میں جو تصورات رائج ہیں وہ انسان کا ماحول سے تقدس اور احترام کا رشتہ پیدا کرتے ہیں۔ مقامی شاعری میں ماحول کو حسن، سکون اور بقا کا سرچشمہ بتایا جاتا ہے۔
زبان ماحول سے متعلق علم کو محفوظ بنانے کا کام کرتی ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں سےآدھی سے زیادہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کے معدوم ہونے کے ساتھ ہی انسان کا ماحول سے متعلق علم بھی معدوم ہو جائے گا۔ لوک کہانیوں، ضرب الامثال اور محاورات میں ماحول سے متعلق انسانی تجربے کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام بھی زبان ہی سر انجام دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اونٹ کے منھ میں زیرا، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، جیسا بوو گے ویسا کاٹو گے، گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا، ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرنا، لومڑی کے خواب میں انگور، بندر کیا جانے ادرک کا سواد، جیسی کرنی ویسی بھرنی اور اندھا کیا جانے بسنت کی بہار وغیرہ ایسے محاورات اور ضرب الامثال ہیں جو ہمارے ماحول سے متعلق رویے کا فطری اظہار ہیں۔ یہ محض اخلاقی یا سماجی پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالتے بلکہ قدرتی ماحول سے متعلق انسانی سوچ کے عکاس ہیں۔ ماحول میں جتنا تنوع ہو گا زبان میں محاورات اور ذخیرہ الفاظ میں بھی اسی نسبت سے تنوع موجود ہو گا۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ زبان اور ماحول ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماحول میں تبدیلی زبان میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور زبان خود کو نئے ماحول سے ہم آہنگ کرکے نئی سوچ اور فکر کو پیدا کرتی ہے۔ ماحول سے متعلق علم کو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے۔

Author

  • ڈاکٹر عبدالعزیز ملک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں