جیمس جوائس بحیثیت فکشن نگار

بیسویں صدی کے معروف ناول نگار،شاعر ، افسانہ نگاراور نقاد، جیمس جوائس دو فروری 1882ء کوآئر لینڈ کے شہر ڈبلن میں، ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ اس کی زندگی کے ابتدائی ایام آسودگی میں گزرے لیکن آگے چل کر دو شادیوں اور بیٹی (Lucia)کی علالت نے اسے ذہنی اذیت اور کرب میں مبتلا رکھا۔اس مشکل اور اذیت ناک صورت ِ حال کے باوجود، اس کی تخلیقی قوت اور ذہانت میں کمی نہیں آئی اور وہ مسلسل ادب تخلیق کرتا رہا جس کے نتیجے میں اسے عالم گیر شہرت اور عزت نصیب ہوئی۔اس کی کتب کو دنیا کی اہم زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔ترجمے کے باعث اس کی تحریروں سے کروڑوں لوگ فیض یاب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ اسے پچھلی صدی کے سو بااثر ادبا میں شامل کیا جاتا ہے۔
جیمز جوائس کی پہلی کتاب “ڈبلنرز”(Dubliners)ہے جو ان کے افسانوں کامجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں پندرہ افسانے شامل ہیں جو بیسویں صدی کے ڈبلن کے رہائشیوں کی روز مرہ زندگی کی تصویر کشی کرتے ہیں ۔ان کہانیوں میں اُنھوں نے ڈبلن میں سماجی اورسیاسی جمود، انسانوں کی زندگیوں میں گرجے کا بے جا عمل دخل ،انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں اور قیدکے احساس کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی کہانی (The Dead)”مردہ”کلاسیک میں شمار کی جاتی ہے جس میں انھوں نے ایسی زندگی کو مردہ خیال کیا ہے جو جوش و جذبے اور مقصد سے عاری ہو۔( اس کہانی کا اردو ترجمہ موجود ہے جسے شاہد احمد دہلوی نے اردو روپ دیاتھا۔اسے کلچرل اکیڈمی ،گیا ، بھارت سے 1980ء میں شائع کیا گیا تھا)انھوں نے کہانی میں واقعات کے سلسلے کو اس انداز سے جوڑا ہے کہ قاری کہانی کے آخری پیراگراف تک اس کا ادراک نہیں کر پاتا۔کہانی کا بیشتر حصہ کرسمس کی پارٹی پر مشتمل ہے جس میں کردار رقص و سرود سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔گبرائیل ، گریٹا اور للی کے کردار وں کی حرکات و سکنات سے وہ قاری کے ذہن پر زندگی، موت ، حسن اور جذبے کی کیفیات کو مرتسم کرتا جاتا ہے جو اس کی فنی مہارت کی واضح مثال ہے۔اس کے علاوہ ” اینکاؤنٹر”،” دی سسٹرز”،” ارےبی”اے لٹل کلاؤڈ”،”کاؤنٹر پارٹس” اور” کلے” بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں انھوں ڈبلن کے رہائشیوں کو زندگی کے معنی اور مقصد تلاش کرتے ہوئے دکھایا ہے۔اس مجموعے کی کہانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابسن اور فلابئیر سے خاصا متاثر تھا۔
جیمس جوائس نے اپنے فکشن میں جن طرزِ تحریر کو اپنایا اس نے جدیدیت کے رجحان سے منسلک مصنفین کو متاثر کیا اور پھر اُن سے متاثر ہوکر کئی فکشن نگاروں نے ان کے اندازِ تحریر اور اُسلوب کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ۔جدیدیت کے تحت لکھاریوں نے روایتی طرزِ اظہار اوراُسلوب سے بغاوت کی اور اپنے لیے نئی راہیں تلاش کیں ۔جیمس جوائس نے فکشن تحریر کرتے ہوئے “شعور کی رو”،”داخلی خود کلامی” اور”زمانیت و مکانیت” کے مروجہ تصورات سے ہٹ کر،ان کو استعمال کیا ۔جدیدیت کی ترویج و اشاعت کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بظاہر بیسویں صدی میں ایک طرف سائنسی نظریات کا انسانی ذہن کی تشکیل میں کردار اور دوسری جانب نفسیات کے علم میں انسانی ذات کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں کا مطالعہ کرنا شامل ہے۔آسٹریا کے ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کا انسانی ذہن کو شعور، تحت الشعور اور لا شعور میں تقسیم کرنا ، کارل گستاؤ ژونگ کا وراثت میں ملنے والے جذباتی رویوں کو اہم قرار دے کر اجتماعی لاشعور کو تخلیق کامبدا ٹھہرانا اور ایڈلرکا احساسِ کمتری کے تحت تخلیقی قوّتوں کو جلا دینے کا تصور، ایسے نظریات ہیں جنھوں نے جدیدیت کے رجحانات کو فروغ دینے میں تقویت دی۔ پہلی جنگِ عظیم کے اثرات کے تحت انسان کی اندرونی کیفیات کی عکاسی کرنے کے لیے جدیدیت کی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ۔بعض ناقدینِ ادب اس کو تکنیک سے زیادہ اُسلوب تصور کرتے ہیں۔ڈاکٹر احسن فاروقی نے آسان الفاظ میں اس کو یوں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب ہم آپس میں خیالات کاتبادلہ کرتے ہیں تو زبان اورعام بول چال کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ذہن میں آنے والے خیالات کا اس طرح اظہار کرے، جس ترتیب سے وہ ذہن میں وارد ہو رہے ہوتے ہیں تو اس عمل کو” شعور کی رو “کہا جائے گا۔دوسرے الفاظ میں ہم کہ سکتے ہیں کہ شعور کی رو ایک ایسی تکنیک ہے جس میں کسی واقعے کو بیان کرنے کے لیے پلاٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسے اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے کسی شخص کے ذہن میں تاثرات کی بے ہنگم دھار بہ رہی ہو۔نفسیات یہ خیال کرتی ہے کہ انسانی شعور ایک سیال شے ہے جو بغیر کسی منطقی ربط کے زندگی بھر کام کرتا ہے۔ اس کو سب سے پہلے ماہر نفسیات ولیم جیمز نے اپنی کتاب”اصولِ نفسیات” (Principles of Psychology)میں بیان کیا۔اس نےموضوع اور معروض میں ایسا تعلق تلاش کیا جو بغیر کسی منطقی ربط کے عمر بھر قائم رہتا ہے۔ انسان گفتگو کے دوران میں اس کا کچھ حصہ بیان کر دیتا ہے لیکن اس کا بڑا حصہ زیریں سطح میں گم رہتا ہے۔
ڈورتھی رچرڈ سن انگریزی کی وہ پہلی ناول نگار تھیں جنھوں نے اپنے ناول “پوائنٹڈ روف” میں اس طرح کا اسلوب اختیارکیا جس میں کرداروں کے موضوع اور معروض میں ایسا تلازمی رشتہ استوار کیا گیاتھا جس میں منطقی ربط غائب تھا ۔اس اسلوب کو درجہ کمال تک پہنچانے میں جیمس جوائس کا نام سرِ فہرست ہے۔اس نے 1922ء میں اشاعت پذیر ہونے والے ناول” یولیسسز” میں اس تکنیک کا استعمال کیا ۔ اس تکنیک کے استعمال کا اثر یہ ہوا کہ کئی دیگر ناول نگار اس کی پیروی میں مگن ہو گئے اور اس تکنیک کو اختیار کیا۔ورجینیا وولف نے اپنی تخلیقات” مسز ڈالوے” اور” ٹو دی لائٹ ہاؤس” میں اس کا استعمال خوب صورتی سے کیا۔ولیم فاکنر نے “دی ساؤنڈ اینڈ دی فیوری” میں اورمارسل پروسٹ نے”ان سرچ آف لاسٹ ٹائم” میں اس تکنیک کو استعمال کر کے عروج بخشا۔ اس تکنیک کے ذریعے ادب کی نئی جہت سامنے آئی جس کے توسط سےمصنف کو کرداروں کےذہن اور باطن کی گہرائیوں میں اترنے کا موقع ملا۔اردو ادب میں بھی اس کےاثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حسن عسکری نے جب ستاں دال کے ناول کا ترجمہ” سرخ و سیاہ” کے عنوان سے کیا تو اس میں” شعور کی رو” کا استعمال ملتا ہے ۔ بعد ازاں اُنھوں نے اپنے افسانوں” حرام جادی” اور “قیامت ہمرکاب آئے نہ آئے” میں اس کو اختیار کیالیکن سجاد ظہیر کے ناولٹ ” لندن کی ایک رات” اور قرۃ العین حیدر کی بعض تحریروں میں بھی،اس کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس تکنیک میں زمان و مکاں کے اعتباری تصورات تہس نہس ہو جاتے ہیں اور زندگی ایک وحدت دکھائی دینے لگتی ہے۔اس کا اظہار خوب صورت اور بھر پورانداز میں ” یولیسز” میں دکھائی دیتا ہے۔ناول کا مذکورہ نام یونانی شاعر ہومر کی نظم “اوڈیسی”سے متاثر ہو کر لیا گیا ہے۔اس ناول کی اشاعت کے بعد اس پر الزامات کی بھر مار ہوئی اور اس کی تحریروں پرامریکا اور برطانیہ میں پابندی عائد کر دی گئی۔برطانیہ میں جیمس جوائس کے کام پر 1936 ء تک پابندی برقرار رہی۔مذکورہ ناول کی کہانی لیوپولڈ بلوم ،مولی بلوم اور سٹیفن ڈیڈالس نامی کرداروں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں 16 جون 1904 کے دن کی کہانی ہے۔لیو پولڈ بلوم اشتہاری ایجنٹ اور ناول کا کلیدی کردار ہے۔سٹیفن ڈیڈالس ایک نوجوان کردار ہے جو بلوم سے ملتا ہے اور مولی بلوم لیو پولڈ بلوم کی بیوی ہے جو اوپرا گلوکارہ ہے۔ناول میں ہومر کی نظم” اوڈیسی” کے متوازی کہانی پیش کی گئی ہے جس میں لیو پولڈ بلوم کے کردار کو یولیسز کے کردار سے ملایا گیا ہے۔ناول میں علامتوں کا استعمال کثرت سے ملتا ہے جس سے کہانی میں گیرائی و گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔جیمس جوائس نے مذکورہ ناول میں لسانی تجربات کرنے کی بھی کوشش کی ہے جس میں مختلف زبانوں اور بولیوں کے الفاظ کومتن کا حصہ بنایا گیا ہے۔اسے جدید ادب کا اہم ترین ناول خیال کیا گیا ہے جس نے ناول نگاری کے روایتی اسلوب اور طرزِ تحریر کوموضوعاتی اور تکنیکی سطح پر چیلنج کیا ہے۔روایت سے بغاوت کی وجہ سے اس ناول کو طویل عرصے تک مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس کے علاوہ ” اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز اے ینگ مین” نے بھی جوائس کے کام کو اعتبار اور وقار بخشا ہے۔اس ناول میں بھی انھوں نےشعور کی رو، علامت نگاری اور داخلی خود کلامی جیسی تکنیکوں سے مدد لی ہے۔اس ناول کو سوانحی ناول بھی کہا جاسکتا ہے جو جدیدیت کی تحریک میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوانحی ناول سوانح اور فکشن کےامتزاج کا دوسرا نام ہے۔ناول کے عنوان میں موجود لفظ” پورٹریٹ” اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے شعوری طور پر سوانح کے عناصر کو ناول میں بیان کیا ہے۔ اس طرز کے ناولوں میں پورا ناول ایک کردار کی حرکات و سکنات کے گرد تشکیل دیا جاتا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ سوانح میں ناول کے اجزا شامل کیے جاتے ہیں یا ناول میں سوانحی عناصر کو شامل کر لیا جاتا ہے۔انگریزی ادب میں اس کی طویل روایت موجود ہے۔ ہربرٹ ریڈ اورورجینیا وولف سے لے کرژاں پال سارتر اور سیمون دی بووا تک سوانحی ادب کا ایک انبار ہے جس کو صرف پڑھنے کے لیے بھی عمرِ نوح درکار ہوگی ۔اردو ادب میں ہادی رسوا کا “امراؤجان ادا”عصمت چغتائی کا “ٹیڑھی لکیر”،قرۃ العین حیدر کا” گردشِ رنگِ چمن اور جمیلہ ہاشمی کا “دشتَ سوس” وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔جمیز جوائس کے ناول “اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز اےینگ مین”میں ناول کی کہانی سٹیفن ڈیڈلاس کی بچپن سے بلوغت تک ذہنی، جذباتی اورروحانی نشوونما کی روداد ہے۔ اس ناول میں مصنف ہمیں دکھاتا ہے کہ کیسےبچپن کی معصومانہ سوچ اور اشیا ءکا ادراک،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ اور منطقی فکر میں ڈھل جاتاہے۔وہ زندگی کے ابتدائی ایام میں مذہبی ادوار سے گزرتا ہے اور پھر چرچ کے بیانیے پر تشکیک کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔وہ خاندان ، قوم اورمذہب کی عائد کردہ پابندیوں میں ،بے چینی محسوس کرتا ہے اور پھر ایک دن آئر لینڈ کی سر زمین سے نئے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔یہ سفر ایک فنکار کی خود شناسی اور معاشرتی حدبندیوں سے آزادی کا سفر ہے جسے جیمز جوائس نے فنکارانہ مہارت سے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ ناول میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ دکھایا گیا ہے جب آئر لینڈ اپنی آزادی کے لئے جدو جہد کر رہا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اس میں آئرش شناخت، کیتھولک گرجا کی پابندیوں اور معاصر عہدکے معاشرتی اورسیاسی چیلنجز کو موضوع بنایا گیا ہےجو اس خطے کو اس دور میں در پیش تھے۔بعض ناقدین اس ناول کے مرکزی کردار کو جیمز جوائس کے والد کے مماثل تصور کرتے ہیں ۔
جیمز جوائس کوفکشن کے مطالعے کا بے پناہ شوق تھا۔اس نے ڈینیل ڈیفو، جیرم کے جیرم اور ہینری ڈی بالزاک کی کہانیوں کو ژرف نگاہی سے پڑھا تھا ۔ اسے انیسویں اور بیسویں صدی کے روسی اور فرانسوی مصنفین میں بطور خاص دلچسپی تھی۔اسی لیے اس نے فلابئیر،ایمائیل زولا،ایوان ترگنیف ،ٹالسٹائی اور دوستووسکی کے فکشن کا بھی بغور مطالعہ کیا تھا۔ اس کی فکشن سے لگن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نےمعروف ڈراما نگار ابسن کے فکشن کو پڑھنے کے لیے نارویجین زبان بھی سیکھ لی تھی۔اس کی پہلی تحریر جس نے اسے ڈبلن سے باہر کے ادبی حلقوں میں متعارف کرایا، وہ اس کا ابسن کے آخری ڈرامے پر لکھاہوا مضمون تھا جو “فورٹ نائٹلی ریویو” میں 1900 میں شائع ہوا۔مذکورہ مصنفین کے اثرات کو جوائس کے فکشن پر محسوس بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس نے زیادہ اثرات ڈی ایچ لارنس اور ورجینیا وولف سے قبول کیے جنھوں نے جدیدیت پر مبنی فکشن تحریر کرنے کی طرح ڈالی تھی۔جوائس کے فکشن کے متنوع پہلوؤں جیسا کہ اسلوب،بیانیہ تکنیک،پلاٹ اور موضوعات جدید یت کا منشور ثابت ہوئیں اور بعد میں آنے والوں نے وہی روش اپنا لی ۔یوں جوائس کے فکشن کو ہم جدیدیت کا علمبردار فکشن کہ سکتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر عبدالعزیز ملک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں