یکم اپریل ۱۹۲۹ء کو چیکو سلواکیہ میں پیدا ہونے والے میلان کنڈیرا نے ناول نگاری میں خوب نام کمایا اور دنیائے ادب میں کئی اہم اور معروف ناول قلم بند کیے۔ان میں Life Is Elsewhere,The Book of laughters and Forgetting,The Unbearable Lightness of Being,Imortality,Slowness,Ignorance اور Identity نمایاں ہیں ۔اس کے علاوہ انھوں نے ادب کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی جن میں ڈراما نگاری، مضمون نگاری، افسانہ نگاری، شاعری اور تنقید شامل ہیں۔ ناول کے فن پر ان کی کتاب The Art of The Novel کسی تعارف کی محتاج نہیں جس کا اردو میں ‘‘ناول کے فن’’ کے نام سے محمد عمر میمن کے قلم سے ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ تخلیقی اور تنقیدی ادب کے علاوہ کنڈیرا کو موسیقی کی دھنیں ترتیب دینے میں بھی خاصی مہارت ہے۔ یہ فن اس نے ورثے میں حاصل کیا ہے کیوں کہ اس کا والد چیکو سلواکیہ کا ماہر موسیقار اور پیانو بجانے میں خاص مہارت رکھتا تھا۔ میلان کنڈیرا پراگ میں اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ میں سینما گرافی اور موسیقی کے مضامین بھی پڑھاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں جابجا موسیقی کی اصطلاحات کے حوالے ملتے ہیں۔ ابواب کی تکرار، پلاٹ کا تنوع اور موضوع کی وحدت میں اس پہلو کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔خاص طور پراس کے ناول The Joke کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اُسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ موسیقی میں علویت کے درجے تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے اس لیے اس نے ادب اور جمالیات کواپنا موضوع بنایا۔ ( کنڈیرا کے بیشتر ناول چیک زبان میں تحریر ہوئے ہیں اور کچھ فرانسوی زبان میں، ترجمہ نگاروں نے ناولوں میں موسیقی کی اصلاحات اور بحثوں کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کیا، جس پر کنڈیرا کو سخت اعتراض ہے، اس کا ذکر اس نے اپنی کتاب “ناول کا فن” میں کیا ہے جس کی تفصیل کے لیے کتاب دیکھی جا سکتی ہے)
کنڈیرا کے عنفوان شباب میں ہی اس کے ملک کو سیاسی اور سماجی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جنگِ عظیم نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چیکو سلواکیہ اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا، لہذا یہاں پر بھی روسی حکومت نے اپنے اثرات مرتسم کیے اور بائیں بازو کے خیالات زور پکڑنے لگے۔ میلان کنڈیرا کی زندگی کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا شوق رہا ہے، اسی شوق کی بنیاد پر اس نے کیمونسٹ پارٹی آف چیکو سلواکیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۵۰ء میں اسے پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں اس نے پارٹی میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔میلان کو ۱۹۷۰ء میں ایک بار پھر پارٹی سے نکلنا پڑا کیوں کہ وہ کلاسیکی چیک کیمونزم میں اصلاحات کا حامی تھا اور پارٹی کے دیگر اراکین اس کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی تحریریں انفرادیت پسندی اور حکومت مخالف خیالات کے کارن ناقابلِ قبول ٹھہریں۔ پارٹی سے انخلا کے بعد اس نے خاموشی اختیار کی اور ۱۹۷۵ء میں فرانس منتقل ہو گیا۔ ۱۹۷۹ء میںThe book of Laughter and Forgetting تحریر کرنے کی پاداش میں اسے چیکو سلواکیہ کی شہریت چھوڑنا پڑی۔ ۱۹۸۱ء میں اس نے فرانس کی شہریت اختیار کر لی جو تاحال قائم ہے۔ بعض سیاسی وُجوہات کی بنیاد پر اس کی تحریروں کو چیکو سلواکیہ میں پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
میلان کنڈیرا کی تخلیقات، سیاست، تاریخ، جنس، وُجودی کرب، انسانی تعلقات، ابدیت، آفاقیت، موت اور انسانی زندگی ایسے دقیع موضوعات پر محیط ہیں۔ ان موضوعات کو پیش کرنے کے لیے اس نے ایسے منفرد کردار تخلیق کیے ہیں جو اس کے تخیلاتی اور تخلیقی ذہن کی اختراع ہیں۔ وہ اپنے کرداروں سے باپ ایسی شفقت برتتا ہے کیوں کہ وہ خود بیورو کریسی کا ہدف رہ چکا ہے اس لیے اسے ظلم کے کرب کی نہ صرف تفہیم ہے بلکہ محسوس کرانے کی صلاحیت بھی ہے۔ کنڈیرا نے ملازمت سے ہاتھ دھوئے، اس کی بیوی نے انگریزی پڑھا کر کچھ بچت کی اور یوں کنڈیرا کا قلم چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کرداروں کے جبر کا قائل نہیں اور ان کو آزادانہ پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کنڈیرا کو جنونی لوگ پسند ہیں، یہی چیز اس کے کرداروں میں بھی نمایاں ہے۔ وہ عموماً کہانی واحد متکلم یا واحد غائب کے صیغے میں بیان کرتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ کرداروں کی جملہ طبعی اور داخلی خصوصیات بیان کرنا مصنف کے بس میں نہیں، ان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب قاری متن کی قرأت میں شامل ہوتا ہے اور اپنے تخیل سے ان کمزوریوں کو مکمل کرتا ہے جو بیان ہونے سے رہ گئی ہیں۔ مصنف کا کام ہے کہ وہ موضوع کے بیان، ناول میں ڈرامائی تناؤ اور کہانی کی فضا پر توجہ دے، باقی خالی جگہ قاری مکمل کرلے گا۔ اسی لیے وہ گارشیا مارکیز اور حوزے سارا ماگو کے مانند، قصہ گوئی سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی بیانیہ میں کہانی پن کی مطلق العنانیت قائم ہونے دیتا ہے۔ اس کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح انسانی وجود کے پوشیدہ گوشوں کو قاری پر منکشف کرے، اسی میں اس کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے اور اسی باعث وہ گوگول اور کافکا کے ورثے کا اکلوتا وارث متصور ہوتا ہے۔ اس کے ناول فلسفیانہ خیالات، تاریخی پس منظر، خواب ناک فضا اور ابہامی کیفیات سے لبریز، فرد کی آزادی کے آئینہ دار ہیں۔ میلان کنڈیرا کی تحریروں پر نٹشے، ہینری فیلڈنگ، مارٹن ہائیڈیگر، فرانز کافکا، ہرمن براوئچ، البرٹ کامیو، پروسٹ اور جیمز جوائس کی تحریروں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں جس کے باعث انسانی زندگی کے ارفع اور وقیع موضوعات کو ناولوں کا حصہ بناتے ہوئے وہ جمالیاتی لطافت سے گریز نہیں کرتا۔ کلاسیک میں وہ سروانتے اور ہم عصر ادیبوں میں گبرائیل گارشیا مارکیز کا معترف ہے۔ روسی ناول نگاروں میں ٹالسٹائی کو پسند کرتا ہے اور دوستووسکی سے متنفر ہے، وہ غیر فکشنی تحریروں میں جگہ جگہ اس کا استرداد کرتا ہے۔
بقول خالد جاوید “ویسے بھی ادب کا مطالعہ فلسفے کے خشک پن کو دور کر دیتا ہے۔” اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب فن میں موضوع کے ساتھ ساتھ جمالیاتی خصائص کا خیال بھی رکھا جائے۔ متن کی جمالیات کے باوجود اس کا فکشن سنجیدہ قاری سے مخاطب ہے اور اس کے فکشن کی تفہیم میں حیرت انگیز طور پر سنجیدہ قاری کا سانس بھی پھول جاتا ہے۔ اس کا باعث اس کا صحافیانہ اندازِ فکر سے تنفر ہے۔ وہ فکشن کے اسرارو رموز سے بخوبی واقف ہے جس کا اظہار فکشن کے فن پر اس کی تنقید سے ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس کی تین کتابیں The Art Of The Novel,Testaments BetrayedاورThe Curtain نمایاں ہیں۔ان کتابوں میں یورپی فکشن کی تنقید، چیکو سلواکیہ کی تہذیب اور ناول کے فن کا خوش اسلوبی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
میلان کنڈیرا کا ناول “پہچان” اپنی نوعیت کا منفرد ناول ہے جو پہلی بار ۱۹۹۸ء میں منظرِ عام پر آیا جسے لنڈا اشر (Linda Ashar) نے فرانسیسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس ناول کو معروف مترجم محمد عمر میمن نے انگریزی سے اردو زبان کا جامہ پہنایا ہے جو پہلی بار ۲۰۰۷ء میں اور بارِ دیگر ۲۰۱۹ء میں شہرزاد، کراچی سے شائع ہوا ہے۔ (مضمون رقم کرتے ہوئے یہی ترجمہ زیرِ مطالعہ رہا ہے جس سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں) مذکورہ ناول میں جدید انسان کے شناخت کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس مسئلے کو نمایاں کرنے کے لیے ناول نگارنے کرداروں کی داخلی کیفیات، تصورات و خیالات، سماجی تعلقات، اقدار اور خارجی حالات کو وسوسوں، واہموں اور خوابوں کی مدد سے بیان کیا ہے۔ ناول دو کرداروں شونتال اور ژوں مارک کے مابین رشتے کی خستگی اور شکستگی کے گرد گھومتا ہے۔ ناول کا آغاز فرانس کے تفریحی علاقے نارمنڈی کے ایک ساحلی ہوٹل سے ہوتا ہے جہاں شونتال جو پیرس کی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتی ہے کو ایک رات اپنے دوست ژوں مارک کے بغیر گزارنی ہے۔ اگلے دن ژوں مارک نے اُس سے ہوٹل میں ملنا ہے۔ اس دوران میں وہ وقت گزارنے کی غرض سے ساحل پر جاتی ہے اور وہاں شوہروں کو دیکھتی رہتی ہے۔ ذہن میں رہے کہ شونتال نے پانچ سال پہلے بچے کی وفات کے بعد اپنے شوہر سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ ساحل پر اُسے “باپ” کم اور “ڈیڈی” زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ شونتال کے ذہن میں باپ اور ڈیڈی کا نمایاں فرق موجود ہے۔ باپ اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی تربیت اور تعلیم کی خاطر ان پر سختی کرنے سے گریز نہیں کرتا، اس کا ایک خاص رعب اور دبدبہ ہوتا ہے جب کہ ڈیڈی کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی ہوتی ہے جو محض اپنے شوہرانہ فرض کی ادائی کے علاوہ کچھ نہیں کرتا، جو باپ تو ہوتا ہے لیکن اس کے پاس باپ کا اختیار نہیں ہوتا۔
ساحل سے واپسی پر وہ ہوٹل میں ویٹرسز کی بات چیت سنتی ہے جو ٹی وی پر چلنے والے پروگرام “نظر سے اوجھل” پر خیالات کا اظہار کرنے میں منہمک تھیں۔ یہ پروگرام گم شدہ لوگوں کی بابت معلومات پر مبنی ہے۔ ان کی گفتگو نے شونتال کے اندر ہلچل پیدا کر دی اور اس نے ژوں مارک کو کھو دینے کا تصور کیا۔ اس نے سوچا کہ ژوں مارک کی گم شدگی پر نہ وہ خود کشی کر سکے گی کیوں کہ یہ صریح دغا بازی ہو گی اور نہ انتظار کر سکے گی۔ اس ٹی وی پروگرام کا حوالہ دے کر میلان کنڈیرا نے ادب اور میڈیا میں تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح میڈیا انسانی زندگیوں کی مختلف جہات کو منکشف کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ شونتال سابقہ شوہر سے لاتعلقی کے بعد ژوں مارک سے تعلق پیدا کرلیتی ہے۔ اس کے بعد وہ جس خوف اور وسوسے کا شکار ہے اسے ناول نگار نے خوابوں اور واہموں کی مدد سے قاری پر آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں ناول میں داخلی اور خارجی حقیقتوں، ماضی اور حال، خواب اور واہمہ، جھوٹ اور حقیقت، موضوع اور معروض کے مابین واضح اور صریح لکیر دھندلی پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ قاری کو کرداروں کی باطنی اور خارجی کیفیات تک رسائی کے لیے عرق ریزی اور جانفشانی سے کام لینا پڑتا ہے۔ شونتال، ژوں مارک سے ملنے کے بعد جس نمایاں واہمے کا شکار ہے وہ یہ کہ اب وہ سن رسیدہ ہو چکی ہے ۔وہ ژوں مارک سے کہتی ہے کہ “مرد اب اور مڑ کر مجھے نہیں دیکھتے۔” (Men do not turn to look at me anymore.) یہ جملہ ژوں مارک پر عمیق اثرات مرتسم کرتا ہے اور شونتال کے باطن کی وہ محجوب خواہشات جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکیں اس لمحے اس پر منکشف ہو جاتی ہیں۔ وہ اس راز کو پا لیتا ہے کہ “عورت اپنی عمر کا اندازہ اس حساب سے کرتی ہے کہ مرد اس کے جسم میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں یااس سے کتنی غفلت برتتے ہیں۔” اس حوالے سے ژوں مارک کی سو چ کو ناول نگار نے قاری پر یوں آشکار کیا ہے، ناول کا اقتباس ملاحظہ ہو:
“اسے جس چیز کی حاجت ہے وہ محبت بھری نظر نہیں بلکہ اجنبی، ان گھڑ، ہوس ناک نگاہوں کا سیلاب ہے جو کسی بھی اچھے ارادے، امتیاز، نرمی یا تواضع کے بغیر اسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لے۔۔۔ گھیرا جو اٹل ہو اور جس سے فرار ممکن نہ ہو۔ یہی نگاہیں ہیں جو اسے انسانی معاشرے میں سہارتی ہیں۔” (ص:۳۷)
ژوں مارک، شونتال سے کہنے کا خواہاں ہے کہ “میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں، وہ کہ جو ریتلے ساحل پر کئی کلو میٹر تک تمھیں کھوجنے جاتا ہوں۔ میں، وہ جو آبدیدہ ہو کر تمھارا نام لے لے کر پکارتا ہوں اور جو کرۂ زمین کے طول وعرض میں تمھیں ڈھونڈتا پھرتا ہوں؟” مگر ان دلی کیفیات کا اظہار کرنے سے وہ اپنی کمزوری کے باعث قاصر ہے۔ وہ اسے احساس تک نہیں ہونے دیتا کہ اس وقت وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔ وہ شونتال کی اس محرومی کو بھانپ لیتا ہے اور اسے فرضی خط لکھ کر دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان خطوط میں وہ اسے یقین دلاتا ہے کہ تم انتہائی خوب صورت اور دلنشیں ہو، تمھیں اس دنیا میں کوئی بے لوث چاہنے والا موجود ہے جو ہمہ وقت تمھارے تعاقب میں رہتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دونوں کردار عاشق اور معشوق کی شناخت دھندلا کر ایک دوسرے کے لیے اجنبیت اختیار کر لیتے ہیں اور دونوں میں نفسیاتی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔ شونتال اس دوران میں تخیلاتی دنیا تخلیق کرتی ہے جو فنتازی ہی فنتازی ہے۔ وہ رومان اور حقیقت کے مابین ہچکولے کھاتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر ژوں مارک نہ رہا تو اس کا مستقبل کیسا ہو گا۔ وہ حال سے مستقبل اور مستقبل سے ماضی کا سفر طے کرتی دکھائی دیتی ہے جہاں اس کے مرحوم بیٹے اور سابقہ شوہر کی یادیں دفن ہیں۔ وہ اس ماضی سے مکمل فرار حاصل کرنا چاہتی ہے اسی لیے اس نے ایک ایسے مرد کا سہارا لیا جو مختلف قبیل کی زندگی گزارنے کا حامی ہے۔اسی لیے میلان کنڈیرا نے ژوں مارک کو سیرانو (Cyrano) قرار دیا ہے:
“سیرانو وہ آدمی جو عورت سے محبت کرتا ہے، اس سے اس کا اظہار کسی اور آدمی کے نقاب کے پیچھے سے کرتا ہے، جو اپنے نام کی قید و بند سے آزاد ہو کر، اپنی اچانک رہا شدہ فصاحت اور وفور دیکھتا ہے۔” (ص:۸۵)
سیرانو کی مذکورہ اصطلاح سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میلان کنڈیرا نے ایڈمنڈ روسٹنڈ کے ڈرامے “سیرانو دی برجیرک” سے لی ہے، جہاں سیرانو ایک بہادر، شجاع اور باہمت انسان ہے لیکن محبت کے اظہار کی بابت اس سے کہیں زیادہ بزدل اور کمزور ہے۔ وہ اپنی محبوبہ سے اظہار محبت اس لیے نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی لمبی ناک کی وجہ سے خود کو بد صورت سمجھتا ہے۔ یہاں ژوں مارک شونتال کے لیے سب کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے کھل کر اظہار نہیں کرتا کیوں کہ وہ خود کو غریب، کمزور اور بھکاریوں کی سطح کا انسان سمجھتا ہے، وہ اپنی اس کمزوری سے واقف ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ تعجب انگیز طور پر وہ اپنی کمزوری سے مدہوش ہے اور زیادہ کمزور ہونے کا خواہاں ہے۔ ناول میں ایک جگہ وہ بھکاری کو اپنا “نفسِ دیگر” قرار دیتا ہے۔ اپنی کمزوری اور بے بسی کا اظہار شونتال کے سامنے وہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
“لیکن اگر آدمی کے پاس حوصلہ نہ ہو، اگر آدمی کامیابی کا حریص نہ ہو، نام نہ کمانا چاہتا ہو، تو وہ اپنے کو تباہی کے ککر پر بساتا ہے۔ ہاں، یہ ٹھیک ہے کہ میں نے خود کو اس کگر پر خاصی آرام دہ حالت میں بسایا تھا۔ تاہم، یہ تھی تو تباہی کی کگر ہی جس پر میں بسا ہوا تھا۔ تو یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ میرا تعلق اس بھکاری ہے سے ہے، اس عظیم الشان ریستوران کے مالک سے نہیں جہاں اس قدر اچھا وقت گزار رہا ہوں۔” (ص:۷۶)
اپنی کمزوری کو شکست دینے کے بجائے مزید اذیت اور شکست کے نشے میں مسحور ہونا چا ہتا ہے، یہی صورت کنڈیرا کے ایک اور ناول “وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت” (Unbearable Lightness of Being) کے کردار تریزا کو بھی درپیش ہے، جو توماس کی محبت میں گرفتار ہے، محبت جس میں اپنی جملہ صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ ایسا کر نہیں پاتی اور محبت کے تیز دریا میں بھنور کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہاں “پہچان” میں ژوں مارک اسی گھمن گھیری کا شکار ہے۔ محبت کے دریا میں پانیوں کے چکر کے سامنے خود کو کمزور محسوس کر رہا ہے، اسی لیے اپنی محبوبہ کو خوش رکھنے کے لیے گم نام خطوط کا سہارا لیتا ہے۔ وہ بھی شونتال کے مانند فنتازی کا شکار ہے۔ خواب ناک اور فنتازی کی اس صورت حال میں ناول کا بیانیہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات ناول کو سر رئیلزم کی اقلیم میں لے جاتی ہیں جہاں ان کی حرکات و سکنات لاشعور کے تابع ہو جاتی ہیں۔ خوف، خوابوں، واہموں اور فنتازی کی اس صورتِ حال سے دونوں کردار باہر آتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ ناول کے اختتام پر ان کا تعلق ازسر نو بحال ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور محبت کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جیسے ناول کے آغاز میں تھے، جس کا اظہار شونتال کے اس جملے سے ہوتا ہے۔”میں تمھیں کبھی اپنی نظروں سے دور نہیں ہونے دوں گی۔میں تمھیں ہمیشہ دیکھتی رہوں گی اور کبھی نہیں رُکوں گی۔”
ناول میں میلان کنڈیرا نے شونتال اور ژوں مارک کے کرداروں کے ذریعے انسانی وجود کی پراسرار جہتوں کی جس طرح پردہ کشائی کی ہے وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ناول میں قاری کی دلچسپی کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ انسانی وجود کا نمایاں مسئلہ اس کی پہچان ہے جس کی خاطر وہ ہر لمحہ تگ و دو، جِدّوجِہَد اور عمل پیہم میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے، تحرک، فعالیت اور عزم اُس کی شخصیت کا جوہر بن جاتے ہیں۔ اس مقام پر وہ خوف، دہشت اور واہموں سے بالا ہو جاتا ہے، اس میں ایسی صلاحتیں اجاگر ہو سکتی ہیں کہ وہ زمانے کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں تھام کر اسے اپنی مرضی کے موافق ڈھال لے۔ انسانی وجود میں بے پناہ جبلی اور تخلیقی صلاحیتیں مضمر ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ دنیا کو آباد یا برباد کر سکتا ہے۔ وجود کی اس کیفیت کو اقبال نے اپنے شعر میں یوں قلم بند کیا ہے:
عطا ہوئی ہے تجھے روزو شب کی بے تابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
انسان کو دیگر مظاہر فطرت سے ہٹ کرقدرت کی طرف سے جو چیز بطورِ خاص عطا کی گئی ہے، وہ اپنا “جوہر” خود تخلیق کرنے کی صلاحیت اور آزادی ہے، یعنی مخصوص صورتِ حال میں رہ کر اپنے انتخاب اور اعمال سے اس نے خود یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا فرد بنے۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ فرد اپنے فیصلوں اور اعمال کے مجموعے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میلان کنڈیرا نے “پہچان” کے دونوں نمایاں کرداروں شونتال اور ژوں مارک کو ان کے حالات اور وجودی کیفیات سے وجودی طرز فکر میں مقید کیا ہے۔ وہ اپنے فیصلوں اور انتخاب کی آزادی کا استعمال کرتے ہیں۔ انھیں نہ معاشرتی جبرکی پرواہ ہے اور نہ ماضی کے تسلسل کی۔ شونتال کا دوسرا بچہ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ، اپنے شوہر سے علاحدگی، ژوں مارک سے دوستی، نند سے لاتعلقی، لندن روانگی اور ماضی سے انقطاع وغیرہ ایسے فیصلے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان کے نتائج کی وہ خود ذمہ دار ہے۔ یہ وہ فیصلے ہیں جو اس کے مخصوص کردار کی نہ صرف تشکیل کرتے ہیں بلکہ اس کو خاص پہچان عطا کرتے ہیں۔ ژوں مارک کی بے حسی، لاتعلقی اور واہموں سے لبریز زندگی کسی اور کی مسلط کردہ نہیں، اس کا انتخاب بھی اس نے خود ہی کیا ہے، نوکری سے برخواستگی کے بعد وہ کسی دوسری جگہ ملازمت کی کوشش کر سکتا تھا لیکن اس نے ژوں مارک کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، اس نے شونتال کی محبت اور وفا کا راستہ اختیار کیا اور اب اس کی خواہش ہے کہ وہ اسے ہمہ وقت خوش رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب اسے گم نام خطوط لکھ کر، اس سے جفتی کرکے اور اس کی بلاوجہ کی بوریت دور کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس طرح ناول میں ژوں مارک اپنے ذاتی رویے اور اقدار خود متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فرد کی جبلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز اپنے تصرف میں لے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے اسے بہت سی چیزیں ترک کرکے ان میں سے چند کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، چوں کہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے اس لیے ہر انتخاب اپنے ساتھ کرب لے کر آتا ہے، یہ کرب انسانی زندگی میں بحران پیدا کرتا ہے۔ فرد کو ذاتی زندگی میں قدم قدم پر انتخاب کا سامنا ہوتا ہے اس لیے وہ ہر لمحہ ایک نئے بحران کا سامنا کرتا ہے، بحرانوں کا یہ سلسلہ موت کی وقوع پذیری تک جاری و ساری رہتا ہے۔ ان بحرانوں سے گزرتے اور انتخابات کرتے کرتے فرد کی جو شخصیت تشکیل پذیر ہوتی ہے وہی اس کا جوہر ہے جو اسے خاص پہچان عطا کرتا ہے۔ شونتال اور ژوں مارک کے کردار بھی اسی طرح کے وجودی بحران کا شکار ہیں جو بوریت، اُکتاہٹ، تنہائی، اجنبیت اور بے چینی کے ساتھ ساتھ زندگی کی لایعنیت اور لغویت جیسی وجودی جہات کے نمایندہ بن کر سامنے آتے ہیں جو خارج سے فرار حاصل کر کے داخل میں پناہ حاصل کرنے کی طرف مائل ہیں۔ لامکانی (Homelessness) کی کیفیت میں مبتلا، اخلاقی، مذہبی اور سماجی اقدار سے بے بہرہ یہ دونوں کردار اجنبیت اور مغائرت کا شکار ہیں جس سے ان میں بوریت اور اکتاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔ جس کا اظہار ناول کے کردار، ژوں مارک کے توسل سے یوں ہوا ہے:
“وہ سمندری پشتے پر آیا؛ نیچے ریتلے ساحل پر، اس نے مردوں کو دیکھا کہ اپنے سر پیچھے پھینکے ہوا میں پتنگیں چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے عمل کسی قسم کے جوش و ولولے سے عاری تھے، اور ژوں مارک کو اپنا پرانا نظریہ یاد آیا: بوریت کی تین قسمیں ہیں: منفعل بوریت: ناچتی اور جمائی لیتی ہوئی لڑکی؛ فعال بوریت: پتنگ اڑانے کے شائقین؛ اور باغی بوریت: نوجوان جو کاروں کو آگ لگاتے اور دکانوں کی کھڑکیاں چکنا چور کرتے پھرتے ہیں۔” (ص:۱۶)
بوریت اور اکتاہٹ کی یہ کیفیت ناول کے شروع میں ہی شونتال کے کردار کے توسط سے نمایاں ہوئی ہے۔ وہ ہوٹل کی فضا سے اکتا کر ساحل کا رُخ کرتی ہے وہاں بلاوجہ گھومتی ہے، باپ اور ڈیڈی کے مابین فرق کرتی ہے، شوہروں سے فلرٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے، پشتے سے ریتلے ساحل کو دیکھتے دیکھتے بے زار ہو جاتی ہے اور پھر کافی پینے کی غرض سے ایک ریستوران کا رخ کرتی ہے، وہاں سے کافی پیئے بغیر ہوٹل کے کمرے میں لوٹ آتی ہے، اکتاہٹ اور تنہائی کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے نیند کا سہارا لیتی ہے جہاں خواب اسے خاص طرز کی دہشت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ وجودی کیفیات ہیں جو اس کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اکتاہٹ، بوریت اور معاشرتی مغائرت کے ساتھ ساتھ میلان کنڈیرا نے انسانی وجود کی ایک اور جہت موت کو بھی اس ناول میں موضوع بنایا ہے۔ وجودی سطح پر دیکھیں تو انسانی کی موت دو سطح پر موجود ہے۔ ایک معروضی (Objective) اور دوسری موضوعی (Subjective)، جب انسان تنہائی اور داخلی کرب کا شکار ہوتا ہے تو وہ خود کو بے بس اور بے یار و مدد گار خیال کرتا ہے۔ فرد داخلی سطح پر خود کو کمزور تصور کرتا ہے جیسا کہ ژوں مارک، شونتال کے سامنے خود کو کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ یوں وہ بوریت، تنہائی، مغائرت، بے حسی، لاتعلقی اور داخلی کمزوری کے باعث موضوعی موت کی جانب محوِ سفر ہے۔ بے حسی اور لاتعلقی ژوں مارک کی شناخت بن چکی ہے، وہ اپنے قریبی دوست “ف” کی وفات پر کسی خاص ردِعمل کا اظہار نہیں کرتا بالکل اسی طرح جس طرح کامیو کے ناول “اجنبی” کے کردار مرسو نے اپنی ماں کی تجہیز و تکفین کے موقع پر آنسو نہیں بہائے تھے، یہاں ژوں مارک بھی اسی طرح معاشرتی اور وجودی سطح پر لاتعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہا ہے جو دھیرے دھیرے اس کی موضوعی موت کا اعلان ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اس کی اپنے آپ کو تسخیر کرنے کی خواہش ہے؟ یا یہ اس کا ایک ایسا سفر ہے جو اس کا اپنی ذات سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ شونتال سے ژوں مارک کا ایک مکالمہ ملاحظہ ہو جس میں وہ موت سے متعلق گفتگو کر رہا ہے۔
“سچ پوچھو تو، موت کے بارے میں تمھاری اشتہار بازی پر مجھے رشک آتا ہے۔ پتا نہیں کیوں اوائل جوانی ہی سے میں موت سے متعلق نظموں کا گرویدہ رہا ہوں۔ میں نے ایسی بے شمار نظمیں زبانی یاد کر رکھیں ہیں۔ چند سنا سکتا ہوں، تم سننا چاہتی ہو؟ تم انھیں استعمال کر سکتی ہوں۔ مثلاً بودلئیر کی یہ سطریں تمھیں تو معلوم ہی ہوں گی” اے موت! پرانی کپتان، وقت آ گیا چلو لنگر اٹھا لیں! ہم اس زمین سے اکتا گئے ہیں، اے موت، چلو (اسے) چھوڑ دیں!” (ص:۲۹)
ژوں مارک کے دوست “ف” کی مو ت سے قبل جب وہ اس کی عیادت کرنے برسیلز کے ہسپتال میں جاتا ہے تو وہاں ان دونوں کرداروں کے مابین موت جیسی تلخ حقیقت پر گفتگو ہوتی ہے، یہ گفتگو ناول نگار کے تصور موت کی آئینہ دار ہے، اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
“میں پہلے مرنے سے خوف زدہ نہیں ہوتا تھا۔ اب ہوتا ہوں۔ میں اس خیال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا کہ مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ رہتا ہے، مرنے کا مطلب ہے ایک غیر مختتم ڈراؤنے خواب میں زندہ رہنا، لیکن بس کرنا چاہیے، اتنا کافی ہے۔چلو کسی اور چیز کے بارے میں باتیں کریں۔” (ص:۹)
دیکھیں تو موت کے اثرات دھیرے دھیرے انسانی جسم، ذہنی صلاحیتوں اور اس کی توانائی پر مرتب ہوتے ہیں، وہ زندگی جو بے مقصدیت، لغویت اور لایعنیت کے سائے تلے کٹ رہی ہو، باطنی تخریب، داخلی شکست و ریخت اور سماجی رویوں کی خستگی کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھر موت غیر مختتم ڈراؤنے خواب کے سوا کیا ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ناول میں شونتال موت کو شکست دینے کے لیے کریا کرم کی خواہاں ہے:
“اسی لیے تو میں نے ذرا پہلے کہا تھا کہ ان سے جائے امان صرف کریا کرم کی آگ میں ہے اور مرگِ مطلق ہے اور مجھے اس کے بجائے کوئی اور نہیں چاہیے۔ ژوں مارک میں مرگِ مطلق کی خواہش مند ہوں۔” (ص:۵۳)
موت کے وجود سے ہی زندگی کی اہمیت ہے، اسی کے دم سے زندگی میں چہل پہل اور حرکت و حرارت ہے۔ فطرت خود زندگی، کائنات اور لمحۂ تخلیق کی حفاظت کرتی ہے۔ کسی ایک نقش کو مٹانے یا ختم کرنے سے مراد نئے تخلیقی لمحوں کو وجود عطا کرنا ہے۔ شونتال اس بات کو سمجھتی ہے اسی لیے وہ اپنے بیٹے کی موت کو تحفہ سمجھنا سیکھ گئی ہے۔ وہ ہر ماہ اس کی قبر پر جاتی ہے اس سے محوِ گفتگو ہوتی ہے، اُس نے اپنے بیٹے کو اس لیے بھی یاد رکھا ہوا ہے کہ وہ مستقبل کے مقابلے میں اپنے ماضی کی حفاظت کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے خیال میں ماضی کو بھولنا درحقیقت خود کو فراموش کرنے کے مترادف ہے اور خود کو فراموش کرنا اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہے۔ اس کے برعکس ژوں مارک اپنے ماضی کو بھول چکا ہے۔ مثلاً جب وہ اپنے دوست “ف” کی عیادت کرنے جاتا ہے تو وہ اُسے لڑکپن کے واقعات سناتا ہے، پرانے دوست کی موجودگی میں اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے لیکن ژوں مارک کہتا ہے مجھے یہ سب یاد نہیں اور تعجب انگیز طور پر، نہ یادوں کی بازیافت کا خواہاں ہے، وہ اپنے ماضی سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور حال میں زندہ رہنے کا متمنی ہے، حالاں کہ حال اور مستقبل دونوں کا تعین ماضی کی بازیافت کے بغیر ممکن نہیں۔کنڈیرا کے نزدیک یہ بات صرف فرد تک محدود نہیں، قوموں، معاشروں اور ملکوں کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ چیک حکومت ماضی کو مسخ کر کے جس طرح مستقبل کا تعین کرنے کی کوشش کر رہی تھی کنڈیرا نے یہاں اس پر عمیق طنز کیا ہے۔
میلان کنڈیرا نے ناول میں انسانی وجود کی جن متعدد جہات کو کھوجنے کی کوشش کی ہے ان میں سے ایک واہمہ بھی ہے جس کی مدد سے نہ صرف اس نے کرداروں کی وجودی صورتِ حال منکشف کی ہے بلکہ ناول کے بیانیہ کو آگے بڑھانے میں بھی اس کا سہارا لیا ہے۔ ادراک، التباس اور واہمہ بنیادی طور پر نفسیات کی اصطلاحیں ہیں۔ جن کو معرضِ تفہیم میں لانا عام قاری کے لیے سہل نہیں لیکن سادہ ترین لفظوں میں، ادراک حواس کو معنی دینے کا عمل ہے جس میں حافظے اور تخیل کا بنیادی عمل دخل ہے۔ حواس ابتدائی ذہنی اعمال کے نمائندہ ہیں جب کہ ادراک مرکب ذہنی اعمال کو ظاہر کرتے ہیں۔ حس ہمیں صرف اشیا کی حسی صفات سے آگاہی فراہم کرتی ہے جب کہ ادراک اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اشیا کا وُقوف بخشتا ہے۔حس بیشتر تجریدی ہوتی ہے لیکن ادراک ذہن کا مقرون (Concrete) تجربہ ہوتا ہے۔ ماہرین ِ نفسیات نے ادراک کے مختلف ارتقائی مدارج بتائے ہیں جن میں خالص ادراک، مخلوط ادراک اور علامتی ادراک نمایاں ہیں۔ ادراک کی بہتر تفہیم کے لیے اسے مختلف زمروں میں بانٹا گیا ہے جن میں کیفیتی، کمیتی، زمانی، مکانی اور تجربی ادراک شامل ہیں۔ (ان اقسام کی تفصیل میں جانے سے گریز کیا جاتا ہے کیوں کہ مضمون اس کا متقاضی نہیں) بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہم اشیا کو درست طور پر پہچان لیتے ہیں بالفاظِ دیگر ان کا درست ادراک حاصل کر لیتے ہیں، مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، بہت دفعہ ہم دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات کا خیال ہے کہ ہر حسی تاثر کسی خارجی شے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اگر ایسی شے حقیقتاً موجود ہو اور تاثر پیدا کرے تو ہمارا ادراک درست ہو گا لیکن شے موجود نہ ہو اور وہی تاثر کسی اور بنیاد پر پیدا ہوجائے تو یا تو یہ التباس ہوگا یا واہمہ۔ ہمارے غلط ادراک کو التباس کا نام دیا جاتا ہے جو دو طرح سے پیدا ہوتا ہے، ایک ہمارے اعضائے حواس کی فطری کمزوری سے اور دوسرا حواس کی غلط ترجمانی کے باعث۔ التباسات تمام قسم کے حواس سے پیدا ہوتے ہیں،مگر بصارت سے پیدا ہونے والے التباسات عام ہیں جنھیں بصری التباسات (Optical Illusions) کا نام دیا جاتا ہے جو شکل، قامت، فاصلے، سمت اور حرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ واہمے اور التباس میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ التباس میں خارجی اشیا موجود ہوتی ہیں لیکن ہم انھیں سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ رسی کو سانپ سمجھنا التباس ہے۔ اس التباس میں سانپ موجود نہیں لیکن رسی موجود ہے۔ واہمے میں کوئی بھی شے موجود نہیں ہوتی۔ واہمہ ہمارا وہ تجربہ ہے جو خارجی مہیج کی عدم موجودگی میں کسی بنیاد کے بغیر پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں واہمہ کسی قسم کا ادراک نہیں ہوتا کیوں کہ ادراک کے لیے کسی نہ کسی شے کا موجود ہونا ضروری ہے۔ واہمے شرابیوں اور پاگلوں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ پاگلوں کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ یوں باتیں کر رہے ہوتے ہیں جیسے ان کے سامنے کوئی موجود ہو لیکن حقیقتاً وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا۔ولیم جیمز نے “نفسیات کے اصول” میں اسے شعور کی شدید ہیجانی کیفیت قرار دیا ہے۔ میلان کنڈیرا کے مذکورہ ناول میں کئی مقامات پر ژوں مارک واہموں کا شکار ہوتا ہے۔ بیرونی مہیج کی عدم موجود گی میں اسے ایسے مناظر نظر آتے ہیں جسے اُس نے فرض کر لیا ہے مگر موجود نہیں ہیں :
“محبوب کی جسمانی شکل و صورت کو کسی اور کی سمجھ لینے کی غلطی۔ یہ اس کے ساتھ کئی بار ہو چکا ہے! ہر مرتبہ اُسی تحیرکے ساتھ: کیا اس کا مطلب ہے کہ اس کے اور دوسری عورتوں کے درمیان پایا جانے والا فرق اس قدر باریک ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ہستی کی شکل و صورت کا فرق نہ پہچانتا ہو جس سے اسے سب سے زیادہ محبت ہے، وہ وجود جس کا مقابلہ اس کے نزدیک، کسی سے ہو نہیں سکتا؟ ۔۔۔ انتہائے کار یہ رہی وہ۔ اس بار ادنیٰ سے شک کے بغیر۔ یہ وہی ہے، با ایں ہمہ، اپنے جیسے نظر بھی نہیں آرہی ہے۔اس کا چہرہ سن رسیدہ ہے، اس کی نگاہ حیرت انگیز طور پر درشت۔” (ص:۲۱)
اس حوالے سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
“یکا یک وہ اس کے جسم کو سواری سے کچلا ہوا، ریت پر پھیلا پڑا ہوا، تصور کرتا ہے۔ اس کا خون بہہ رہا ہے، سواری ریتلے ساحلوں کی وسعتوں میں معدوم ہوتی جا رہی ہے اور وہ خود کو اس کی طرف لپک کر بھاگتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ اس واہمے سے اس درجہ مضطرب ہو جاتا ہے کہ واقعی شونتال کا نام پکارنے لگتا ہے۔۔۔ اس کا چہرہ رونی صورت کے انداز میں بھنچا ہوا؛ وہ چند لمحوں کے لیے اس کی موت کی دہشت سے گزر رہا ہے۔” (ص:۱۸)
واہمے عموماً اعصابی یا ذہنی حالات کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ خوف، رنج اور اس سے ملتی جلتی کیفیات واہمے کا باعث بنتی ہیں۔ ژوں مارک نے جب سے شونتال کی زبان سے “مرد اب اور مڑ کر مجھے نہیں دیکھتے” جیسا جملہ سنا ہے، ایک خاص طرز کے رنج اور غصے کا شکار ہے جس کا وہ اظہار تو نہیں کرتا مگر اس کے لاشعور میں یہ بات موجود ہے جو اس طرح کے واہموں اور خوابوں کا باعث بن رہی ہے۔
دیکھیں تو خواب بھی واہمے کی سی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں۔ خواب ذہن کی فعلیت ہوتے ہیں جو دبے ہوئے خیالات اور غیر مطمئن خواہشات کی تسکین مہیا کرتے ہیں۔ بیداری کی حالت میں ہم اپنی خواہشات، امیدوں، خوف، دہشت اور مسائل کے حل کے بارے میں سوچتے ہیں اور جب ہم سو جاتے ہیں تو انھی کی بابت خواب دیکھتے ہیں۔ بیداری اور نیند کی حالت میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ نیند میں ہماری ذہنی فعلیت نچلی سطح پر ہوتی ہے۔ اسی لیے اظہار کے لیے یہ اپنا ابتدائی طریقہ اختیار کرتی ہے یعنی تصویری یا علامتی اظہار اپناتی ہے۔ ناول کے بیانیے میں ژوں مارک اور شونتال بارہا خواب دیکھتے ہیں جن کے ذریعے ان کی داخلی کیفیات قاری پر آشکار کی گئی ہیں۔ شونتال کے خواب سے بیدار ہونے کا منظر ملاحظہ ہو جس میں وہ مرے ہوئے بچے کو دیکھتی ہے:
“شونتال!شونتال!شونتال!
وہ اس کے جسم کو بھینچے ہوئے تھا جو رونے کے سبب کپکپا رہا تھا۔
جاگ جاؤ !یہ حقیقی نہیں!
وہ اس کی بانہوں میں لرزتی ہے، اور وہ اس سے کئی بار اور کہتا ہے کہ یہ حقیقی نہیں ہے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے دہراتی ہے۔”نہیں، یہ حقیقی نہیں،”اور ہولے ہولے،بے حد ہولے ہولے، وہ پُر سکون ہو جاتی ہے۔
اور میں اس سے پوچھتا ہوں: خواب کون دیکھ رہا تھا؟ یہ کہانی کس نے گھڑی ہے؟ کس نے اسے تصور کیا ہے؟ شونتال؟ ژوں مارک؟ دونوں؟ ہر ایک نے ہر دوسرے کے لیے؟ اور اول اول کب ان کی حقیقی زندگی اس پُرفریب فنتازی میں بدلی؟ جب ریل گاڑی آبنائے کے نیچے غوطہ زن ہوئی؟ اس سے بھی پہلے؟۔۔۔”
واہمے، خواب اور فنتازی، پُراسراریت کو جنم دیتے ہیں جس سے بیانیہ کہیں سر رئیلزم (Surrealism) تو کہیں ہیلوسی نیٹری رئیلزم (Hallucinatory Realism) کی اقلیم میں داخل ہو جاتا ہے۔ قاری کے لیے یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کب اور کس لمحے حقیقی، غیر حقیقی میں بدل گیا ہے اور کب حقیقت عالمِ خیال کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ سررئیلزم، ہیلو سی نیٹری رئیلزم اور میجک رئیلزم یہ وہ بیانیے ہیں جن کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ ان کا چلن بیسویں صدی کے پہلے ربع سے آرٹ کی مختلف اقسام میں ہوتا ہے۔ مذکورہ بیانیوں نے بیسویں صدی کے نصف کے بعد فکشن میں زور پکڑا۔ بورخیس، گارشیا مارکیز، حوزے سارا ماگو، جیمز جوائس، پیٹر کیری، ازا بیل الینڈی، گنٹر گراس، ژوان رلفو اور مویان تک آتے آتے مذکورہ تکنیکیں پوری دنیا میں عام ہو گئیں۔ میلان کنڈیرا نے بھی سر رئیلزم اور ہیلوسی نیٹٹری رئیلزم کی اس تکنیک سے استفادہ کیا ہے اور حقیقت اور موضوعیت کے امتزاج سے واہمے اور خواب تخلیق کر کے قاری کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔
تکنیک اور مواد کے اعتبار سے میلان کنڈیرا کا ناول “پہچان” منفرد اہمیت کا حامل ہے جس میں کرداروں کی داخلی صورتِ حال سے انسانی وجود کی متعدد جہات کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ حکومتی جبر، جاسوسی نظام ، سیاسی صورتِ حال، سرمایہ دارانہ نظام میں اشتہار بازی، صارفیت اور اس کے جدید انسان پر اثرات کو بھی بین السطور موضوع بنایا گیا ہے۔ انسانی وجود کی مختلف جہات مذکورہ معاشرتی، سماجی اور تاریخی پہلووں سے جُڑی ہوتی ہیں جن سے فرد کا تعلق پیدا کیے بغیر اس کے داخل کو معرضِ تفہیم میں نہیں لایا جا سکتا۔ مذکورہ موضوعات کو ناول میں سے دریافت کیا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔
