پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت خطرناک حد تک زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود ناصرف ہم ملک میں نئے آبی ذخائر بنانے کے حوالے سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں بلکہ پہلے سے دستیاب پانی کو بھی غیر ضروری طور پر ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارش کی شکل میں ہر سال مفت میں حاصل ہونے والا لاکھوں ایکڑ فٹ پانی بھی سیوریج سسٹم میں ڈال کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بعض سیاسی جماعتوں نے اس قومی مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے اور انہیں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے تیار کرنے کی بجائے قومی مفاد پر اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے احتجاج اور الزام تراشی کی سیاست کو فروع دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں پانی کی قلت کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے وہیں اس سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے اعلان نے بھی پاکستان کے لئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت کے لئے فوری طور پر پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاوں کا پانی روکنا ممکن نہیں ہے لیکن بحثیت خودمختار قوم ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم اپنے حصے کے پانی کو ناصرف بہتر طور پر ذخیرہ کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں بلکہ اس کے استعمال کو بھی زیادہ بہتر اور موثر بنائیں تاکہ قومی معیشت کو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو سکے۔ اس طرح ہم ناصرف اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ پانی کے مسئلے پر صوبوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو بھی بہتر طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کی پانی کی مجموعی ضرورت 105 سے 110 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے جبکہ ہمیں دستیاب پانی کا مجموعی حجم 180 سے 200 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ اس میں سے 140 ملین ایکڑ فٹ پانی دریاوں سے اور 10 سے 15 ملین ایکڑ فٹ بارش سے حاصل ہوتا ہے جبکہ 40 سے 50 ملین ایکڑ فٹ پانی گراونڈ واٹر سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس پانی میں سے 93 فیصد زراعت کے شعبے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ چھ فیصد پانی انڈسٹری اور ایک فیصد پانی میونسپل سروسز یا گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کے برعکس انڈیا میں 80 فیصد پانی زراعت کے شعبے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ 14 فیصد پانی انڈسٹری اور چھ فیصد پانی میونسپل سروسز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر پانی کے استعمال کا عالمی منظر نامہ دیکھا جائے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دستیاب پانی کے مجموعی وسائل میں سے 60 فیصد زراعت، 30 فیصد انڈسٹری اور ایک فیصد میونسپل سروسز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں پانی کا سب سے زیادہ غیر ضروری استعمال زراعت کے شعبے میں ہو رہا ہے۔
علاوہ ازیں ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ پاکستان کے پاس صرف 20 سے 30 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 200 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کے لئے پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر اس لئے بھی اشد ضروری ہے کہ گزشتہ بیس برس میں پاکستان کو دس مرتبہ سیلاب اور چار مرتبہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے نئے آبی ذخائر اس وجہ سے بھی ضروری ہیں کہ پاکستان کے دریاوں میں 80 فیصد پانی جون سے ستمبر کے چار مہینوں میں آتا ہے۔ اس دوران مون سون کی وجہ سے بارشیں بھی تواتر سے ہوتی ہیں اور گلیشیئر پگھلنے سے بھی اضافی پانی دریاوں کا حصہ بنتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے زیادہ تر سیلاب اسی وجہ سے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس ان چار مہینوں میں آنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کی مناسب استعداد موجود نہیں ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم از کم سو دن تک بڑھانے کے لئے فوری طور پر عملی اقدامات شروع کرے اور اس سلسلے میں طویل المدت پالیسی بنا کر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اس حوالے سے شہروں اور دیہات میں چھوٹے آبی ذخائر بنا کر بھی پانی ذخیرہ کرنے کی قومی استعداد میں فوری اضافہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں شہروں میں بارش کے پانی کو سیوریج لائنوں میں ڈال کر ضائع کرنے کی بجائے واٹر ریچارج ویل بنا کر گراونڈ واٹر میں شامل کرکے ناصرف بارش کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ زمینی پانی کے معیار کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح زراعت کے شعبے میں بھی پانی کے استعمال کو موثر بنا کر سالانہ کم از کم 40 سے 50 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ زرعی شعبے کی آبپاشی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر سال نہروں میں 75 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جاتا ہے۔ تاہم اس پانی میں سے 20 ملین ایکڑ فٹ پانی سیپج اور بخارات کی شکل میں جبکہ مزید 30 فیصد پانی فلڈ اریگیشن کے باعث ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر زراعت کے شعبے میں فلڈ اریگیشن کی بجائے ڈرپ اریگیشن، سپرنکلرز اور پیوٹ سسٹم کے ذریعے آبپاشی کو فروغ دیا جائے تو سالانہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آبپاشی کے لئے ٹیوب ویلز کے بے دریغ استعمال کو بھی سختی سے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پانی کے ضیائع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
