فیصل آباد میں 7 اور 8 ستمبر کو ہونے والی طوفانی بارش سے جہاں شہر پانی میں ڈوب گیا اور شہریوں کے معمولات زندگی شدید متاثر ہوئے۔ وہیں ایک مرتبہ پھر یہ سوال ابھر کر سامنے آیا ہے کہ کیا فیصل آباد میں اس اربن فلڈنگ کی وجہ زیادہ بارش تھی یا نکاسی آب کا ناقص نظام اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ واسا کی طرف سے ہر سال برسات سے پہلے برساتی نالوں کی ڈی سلٹنگ اور مون سون میں نکاسی آب کے نظام کو فعال رکھنے کے لئے جو کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں وہ ایک ہی شدید بارش کے بعد ناکام کیوں ہو جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ صورتحال بارش کے پانی کی سیوریج کے نظام سے الگ نکاسی کے پرانے نظام کے احیاء یا تشکیل نو کی اہمیت بھی واضح کرتی ہے۔ اس حوالے سے سیوریج کے نظام کی توسیع پر اربوں روپے خرچ کرنے کی واسا کی محکمانہ تجاویز اور حکومتی حکمت عملی پر سوال اٹھانا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ شہر میں زمینی پانی کی سطح پہلے ہی ناصرف بہت نیچے جا چکی ہے بلکہ یہ شدید آلودہ ہونے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔ ایسے میں بارش کے ذریعے حاصل ہونے والی قدرت کی بیش قیمت نعمت صاف پانی کو سیوریج لائنوں میں ڈال کر ضائع کرنے پر اصرار ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ زیادہ بارش سے نکاسی آب کے ذمہ داروں کو زیادہ سرکاری وسائل کی خردبرد کا موقع ملتا ہے۔
واضح رہے کہ واسا فیصل آباد کے مطابق سات ستمبر کو اتوار کے روز شہر میں سب سے زیادہ 124 ملٹی میٹر بارش سول لائن کے علاقے میں ہوئی جہاں واسا کا اپنا ہیڈ آفس بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں واسا کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس روز گلستان کالونی میں 120 ملی میٹر، غلام محمد آباد میں 67 ملی میٹر، مدینہ ٹاون میں 69 ملی میٹر، پیپلز کالونی میں 69 ملی میٹر اور علامہ اقبال کالونی میں 60 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح اگلے روز آٹھ ستمبر کو سوموار کے روز واسا کے مطابق شہر میں سب سے زیادہ 181 یا 184 ملی میٹر بارش غلام محمد آباد میں ہوئی جبکہ علامہ اقبال کالونی اور گلستان کالونی میں 168، 168 ملی میٹر، سول لائنز میں 165 ملی میٹر اور پیپلز کالونی و مدینہ ٹاون میں 154، 154 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
اس طرح واسا کے اپنے ریکارڈ کے مطابق اتوار کے روز ہونے والی بارش کی اوسط 89 ملی میٹر اور سوموار کے روز ہونے والی بارش کی اوسط 165 ملی میٹر بنتی ہے۔ تاہم اتوار کے روز ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کے فیس بک پیج پر غلام محمد آباد کے علاقے میں ہونے والی 184 ملی میٹر بارش کو بنیاد بنا کر یہ دعوی کر دیا گیا کہ شہر میں بارش کا 30 سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری ذرائع سے صحافیوں کو یہ انفارمیشن بھی فیڈ کی جاتی رہی کہ “گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 320 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ شہر کی 64 سالہ تاریخ کی سب سے زیادہ بارش ہے اور اس سے قبل ایک روز میں سب سے زیادہ بارش کا ریکارڈ 5 ستمبر 1961ء کو قائم ہوا تھا جب 254.2 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔”
ان بے بنیادوں دعووں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ناں تو 64 سالہ تاریخ کی سب سے زیادہ بارش کا دعوی درست ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کیا جانے والا یہ دعوی درست ہے کہ سوموار کے روز بارش سے 30 سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے کیونکہ اس سے قبل 21 جولائی 2021ء کو فیصل آباد میں 200 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے اور اس وقت بھی ضلعی انتظامیہ یا واسا کی طرف سے یہ دعوی نہیں کیا گیا تھا کہ شہر میں ریکارڈ بارش ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخی بارش کے حالیہ دعووں کے پیچھے واسا کی نکاسی آب میں ناکامی پر انتظامی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خرابی کی مکمل ذمہ داری موجودہ انتظامیہ پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے سالہا سال سے جاری انتظامی بدعنوانی اور نااہلی مضمر ہے جو کہ نکاسی آب کے نظام کا تفصیلی جائزہ لینے سے صاف ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر واسا نے اپنے قیام کے بعد بارش کے پانی کی دریاوں میں نکاسی کے لئے شہر کے ارد گرد پہلے سے بنے ہوئے برساتی نالوں کو سیوریج کی نکاسی کے لئے گندے نالوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسی طرح شہر کے مرکزی کاروباری و ثقافتی مرکز گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں کے گرد بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے انگریز دور میں بنائے گئے نالوں پر قبضہ کرکے دکانیں اور پلازے تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ شہر کے دیگر کاروباری مراکز بالخصوص ٹاٹا بازار، ڈی گراونڈ، ستیانہ روڈ، جڑانوالہ روڈ، سمندری روڈ اور سرگودھا روڈ پر موجود برساتی نالوں پر بھی یا تو قبضہ ہو چکا ہے یا صفائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مستقل بند ہو چکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رواں سال سے جاری تجاوزات کے خلاف حکومت کی خصوصی مہم کے باوجود برساتی نالوں پر قائم غیر قانونی تعمیرات یا تجاوزات کو ختم کروانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
اسی طرح شہر کے گنجان آباد رہائشی علاقوں میں واقع سینکڑوں فیکٹریاں بھی مقررہ لمٹ سے زیادہ ویسٹ واٹر بغیر کسی روک ٹوک کے سیوریج لائنوں یا انڈسٹریل ایریا کی گلیوں اور سڑکوں پر ڈسچارج کرتی ہیں جس کی وجہ سے پانی کی نکاسی کا نظام غیر فعال رہتا ہے۔ ان علاقوں میں سڑکوں کی حالت اس قدر خراب ہے کہ عام دنوں میں بھی یہاں پانی جمع رہتا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو آمدو رفت میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
علاوہ ازیں حکومت اور شہریوں کی جانب سے ڈویلپمنٹ کے نام پر ہونے والی تعمیرات کے ذریعے قدرت کے نظام میں مداخلت بھی شہر کے نکاسی آب کے نظام کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔ شہر کے ہر گلی، محلے اور سڑکوں پر جا بجا سپیڈ بریکر بنے ہوئے ہیں یا لوگوں نے خود ہی اپنے گھروں کے آگے ملبہ ڈال کر گلیوں اور سڑکوں کو اونچا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پانی کی نکاسی میں خلل آتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر علاقوں میں سرکاری عمارتوں کے عقل سے عاری منتظمین اور رہائشیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بارش کے پانی کو پارکوں یا سرکاری سکولوں میں موجود کھلے میدانوں اور گراونڈز میں نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح یہ پانی سیوریج لائنوں پر ناصرف دباو میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ قدرت کی یہ بیش قیمت نعمت سیوریج میں شامل ہو کر بلیک واٹر میں تبدیل ہو کر ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ان پارکوں اور سرکاری سکولوں، گرین بیلٹس وغیرہ میں ریچارج ویل بنا دیئے جائیں تو ناصرف بارش کے پانی کی جلد نکاسی ممکن ہے بلکہ زمینی پانی کی سطح اور معیار بھی بہتر بنا کر شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ مفت میں حل کیا جا سکتا ہے۔
