فیصل آباد کے ستیانہ روڈ پر واقع ہاوسنگ کالونی مکہ سٹی کی رہائشی شمائلہ انور نے چند سال قبل اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایک رشتہ دار کے کہنے پر اپنی کل جمع پونجی ساڑھے تین لاکھ روپے “ون کوئین، ون لائف” سرمایہ کاری اسکیم میں لگائے تھے۔
شمائلہ کے مطابق انہیں مشورہ دینے والے ان کے رشتہ دار نے بتایا تھا کہ وہ خود بھی اس کمپنی میں سرمایہ لگا چکا ہے اور چند ماہ میں اس کی رقم دوگنا ہو چکی ہے۔
“مجھے بھی یہی لالچ دیا گیا تھا کہ آپ کی رقم چھ ماہ میں اٹھارہ لاکھ ہوجائے گی اور اگر میں نئے لوگوں کو ممبر بناوں گی تو مجھے بونس بھی ملے گا۔”
وہ بتاتی ہیں کہ مقررہ مدت کے بعد جب انہوں نے اپنی رقم اور منافع کا تقاضہ شروع کیا تو کمپنی کے نمائندے ٹال مٹول کرنے لگے اور جس رشتہ دار نے یہ مشورہ دیا تھا اس نے بھی ان کا فون سننا بند کر دیا۔
“ایک دن کمپنی کے نمائندے رزاق شاہ نے مجھے گھر بلا کر نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ مجھے جنسی طور پر بھی ہراساں کیا اور زبردستی خالی اسٹام پیپرز پر انگھوٹھے لگوا کر دستخط کرنے پر مجبور کیا اور دھمکیاں دیتے ہوئے واپس بھیج دیا۔”
وہ بتاتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے ملزموں کے خوف سے خاموشی اختیار کر لی اور آج تک اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہی ہیں کہ انہوں نے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لالچ میں اپنی جمع پونجی کیوں گنوائی۔
شمائلہ انور کے مقابلے میں مدینہ ٹاون کے رہائشی محمد ساجد قیوم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ وہ اسی نوعیت کے فراڈ کا شکار ہونے کے باوجود نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں بروقت شکایت درج کروانے کی وجہ سے اپنی 21 لاکھ روپے سے زائد کی رقم واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے تھے جس سے انہیں اضافی آمدن حاصل ہو سکے۔
“میرے واٹس ایپ پر یہ پیغامات آتے رہتے تھے کہ آن لائن کام کرکے روزانہ گھر بیٹھے اچھی رقم کمائیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ ایک دن وہ اس پیغام کو تائید غیبی سمجھ کر اس میں دیئے گئے ٹیلی گرام ایپ کے لنک پر کلک کر بیٹھے جس پر “اپ ورک پاکستان” کے نام سے مذکورہ کمپنی کا پیج سامنے آ گیا جس پر دی گئی معلومات کے مطابق کمپنی کے ممبران کی تعداد 32 ہزار تھی۔
بعدازاں خود کو کمپنی کی نمائندہ ظاہر کرنے والی غیر ملکی خاتون ایلس گارشیا نے انہیں واٹس ایپ پر کام کے متعلق بریفنگ دی اور انہیں بتایا گیا کہ ہر ٹاسک کی تکمیل پر انہیں سو روپے ادا کئے جائیں گے۔
اس کے بعد انہیں ایک ٹیلی گرام چینل میں شامل کر دیا گیا اور یوٹیوب کے کچھ چینلز کے لنک بھیج کر انھیں سبسکرائب کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
“میں نے اسی دن 15 سے 20 ٹاسک مکمل کئے جس کی رقم مجھے فوری ادا کر دی گئی اور کمپنی کی نمائندہ خاتون نے بتایا کہ آپ کو کمپنی کے وی آئی پی ٹاسک گروپ میں شامل کر دیا گیا ہے۔”
محمد ساجد کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ اس گروپ میں ٹاسک شروع کرنے سے پہلے انہیں ایک فل ٹاسک پیکج خریدنا پڑے گا۔
“میں تو گھر بیٹھے رقم کمانے کے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا جس پر میں نے انہیں فوری ادائیگی کرکے وہ پیکج لے لیا اور پھر مختلف مواقعوں پر کمپنی کے نمائندوں کے کہنے پر رقم کی ادائیگی کرتا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے منافع کی ادائیگی میں تاخیر ہونا شروع ہو گئی اور پھر میرا نمبر بلاک کر دیا گیا۔”
وہ بتاتے ہیں کہ بھاری منافع کے لالچ میں پہلے انہوں نے ذاتی جمع پونجی لگائی، پھر اہلیہ کے زیورات فروخت کئے اور بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی ادھار رقم لی۔
“میں لاکھوں روپے کا مقروض ہو چکا تھا اس لئے میں نے خاموش رہنے کی بجائے قانون کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور پھر میری درخواست پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے ملزموں کے خلاف کاروائی کرکے ناصرف میری رقم واپس دلوائی بلکہ کئی دیگر متاثرین کو بھی ان سے لی گئی رقوم واپس کروائی گئی ہیں۔”
واضح رہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے جولائی 2025ء میں محمد ساجد اور چند دیگر شہریوں کی شکایات پر شہریوں سے مالی فراڈ میں ملوث مقامی و غیر ملکی افراد پر مشتمل 150 افراد کے ایک گینگ کو فیصل آباد کے نواحی گاوں چک 54 ر،ب سرحالی میں واقع سابق چیئرمین فیسکو ملک تحسین اعوان کے ڈیرے سے گرفتار کیا تھا۔
گرفتار ملزموں میں 131 مرد اور 18 خواتین شامل تھیں جن میں 48 چینی، آٹھ نائجیرین، چھ بنگلہ دیشی، چار فلپائنی، دو سری لنکن، دو میانمار کے شہری اور ایک زمبابوے کا شہری تھا۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے ملزموں کے خلاف درج کی گئی آٹھ ایف آئی آرز کے مطابق ملزمان پونزی سکیم اور انویسٹمنٹ فراڈ میں ملوث تھے۔
اس وقت تک گینگ کے مبینہ سرغنہ اور سرپرست ملک تحسین اعوان سمیت زیادہ تر ملزمان ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں جبکہ آٹھ میں سے تین آیف آئی آرز کا چالان عدالت میں جمع ہو چکا ہے اور ان مقدمات پر مزید سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔
یاد رہے کہ پونزی اسکیم ایک ایسا فراڈ ہوتا ہے جس میں پیرامڈ کی طرز پر پہلے سرمایہ کاری کرنے والوں کو بعد میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کی رقم سے منافع ادا کیا جاتا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔ اس طرح کے فراڈ میں ملوث افراد اور جعلی کمپنیاں ابتدائی طور پر لوگوں کو بھاری منافع دے کر اپنا اعتماد قائم کرتے ہیں اور پھر اچانک ساری رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کے فراڈ عام طور پر ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نام سے متعارف کروائے جاتے ہیں جس میں شامل ہونے والے زیادہ تر لوگ اپنی اصل رقم سے بھی محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ اس میں بنیادی توجہ نئے اراکین کی بھرتی پر ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے رقم اکٹھی کی جا سکے۔
تاریخ میں اس نوعیت کا پہلا فراڈ 1920 میں اٹلی کے شہری چارلس پونزی نے کیا تھا، تب سے اس طرز کے فراڈ کو پونزی اسکیم کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں پونزی اسکیمز اور ملٹی لیول مارکیٹنگ فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد یا مالیاتی حجم کا اندازہ لگانا اس لحاظ سے مشکل ہے کہ زیادہ تر متاثرہ افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شکایت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
تاہم اس طرز کے فراڈ سے شہریوں کو ہونے والے نقصان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2024 کے مطابق گزشتہ سال غیر قانونی ڈپازٹ لینے میں ملوث 20 کمپنیوں کو چار ارب 73 کروڑ 53 لاکھ 47 ہزار روپے کے جرمانے کیے گئے اور ان کے 42 ڈائریکٹرز پر کسی دوسری کمپنی کا ڈائریکٹر بننے یا نئی کمپنی قائم کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ ایک سال کے دوران نان لسٹڈ کمپنیوں کو ختم کرنے کے لئے ایس ای سی پی نے 4197 آرڈرز جاری کرکے چھ ارب 57 کروڑ چار لاکھ 46 ہزار روپے کے جرمانے عائد کئے ہیں۔
حال ہی میں نیب نے بھی “B4U” پونزی اسکیم کے ساڑھے 17 ہزار متاثرین کو تین ارب 70 کروڑ روپے کی رقم واپس دلوائی ہے۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان شہریوں کو سرمایہ کاری کے بدلے پرکشش اور غیر حقیقی شرح منافع کا وعدہ کرنے والی پونزی اسکیموں، ملٹی لیول مارکیٹنگ اور اس نوعیت کے دیگر آن لائن فراڈ کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری سے بچنے کے لئے خبردار کرتا رہتا ہے۔
اس سلسلے میں شہریوں کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کسی بھی کمپنی سے متعلق ایس ای سی پی یا دیگر متعلقہ اداروں سے تصدیق لازمی کریں۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ریگولیشن، نفاذ اور عوامی آگاہی کے ذریعے پونزی اور ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیموں کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بینکوں، مائیکرو فنانس اداروں اور نان بینکنگ مالیاتی اداروں کے مرکزی ریگولیٹر کے طور پر اسٹیٹ بینک مالیاتی خدمات کی آڑ میں غیر قانونی طور پر ڈپازٹس جمع کرنے یا غیر مجاز سرمایہ کاری کے منافع کی پیشکش کرنے والی کسی بھی تنظیم کے خلاف نگرانی اور کارروائی کرتا ہے۔
علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان شہریوں کو محفوظ بینکنگ کے طریقوں اور غیر قانونی سرمایہ کاری کی پیشکشوں کے خطرات سے آگاہی اور مالیاتی خواندگی کو فروغ دینے کے لئے بھی کام کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک غیر مجاز مالیاتی کارروائیوں کی نشاندہی اور تفتیش میں بھی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی معاونت کرتا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا کردار اس حوالے سے یوں اہم ہے کہ یہ ادارہ ڈیجیٹل اور ٹیلی کام پلیٹ فارمز کا استعمال کرنے والی پونزی اور ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیموں کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
پی ٹی اے کی سالانہ رپورٹ 2024 کے مطابق موبائل سروس اور آن لائن پلیٹ فارمز پر جعلی پیغامات اور کالز کے ذریعے شہریوں کو پرکشش منافع اور انعامات کا لالچ دینے والی سرمایہ کاری کی جعلی اسکیموں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
اس طرح کے فراڈ میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے پی ٹی اے نے گزشتہ ایک سال کے دوران 5294 موبائل نمبر اور 4507 آئی ایم ای آئی بلاک کئے ہیں جبکہ 113 شناختی کارڈ نمبرز کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں 19 ہزار 730 موبائل نمبرز کے مالکان کو وارننگ جاری کی گئی ہے جبکہ گم ہو جانے والے، چوری شدہ یا چھینے گئے موبائل فونز کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے بھی شہریوں کی شکایات پر 27 ہزار 351 موبائل فون بلاک کئے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے کی جانب سے شہریوں کو اس نوعیت کے فراڈ سے بچانے کے لئے آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
پی ٹی اے حکام کے مطابق پاکستان میں ٹیلی کام صارفین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلانے، قوانین پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکیمز کا مقابلہ کرنے کے لئے مقامی زبانوں میں آگاہی اور مسائل کا حل پیش کرکے صارفین کو مزید بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔
ماہر قانون فیاض بٹ ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ کمپنیز ایکٹ، 2017 کے سیکشن 301 کے تحت ریفرل مارکیٹنگ، پونزی اسکیم اور ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیمیں غیر قانونی ہیں۔
“کمپنیز ایکٹ 2017 کے سیکشن 84 کے مطابق صرف خصوصی/لائسنس یافتہ کمپنیوں کو ہی ڈپازٹ لینے یا مالیاتی خدمات پیش کرنے کی اجازت ہے جیسے لیز، فنانسنگ، سرمایہ کاری کے لئے ڈیپازٹ وغیرہ۔ دیگر اس طرح کی اسکیمیں بغیر اجازت کے چلانا غیر قانونی ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قانونی فریم ورک کی موجودگی کے باوجود اس نوعیت کے مالیاتی فراڈ میں اضافے کی بڑی وجہ شہریوں میں آگاہی نہ ہونا، مالیاتی سمجھ بوجھ کی کمی اور قانون کے نفاذ میں سست روی ہے۔
“اس طرح کے فراڈ سے بچنے کے لئے میڈیا سمیت ہر سطح پر آگاہی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ملک میں کاروبار کرنے کا ماحول بہتر بنانے اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے”
انہوں نے بتایا کہ دھوکہ دہی پر مبنی پونزی اسکیمیں بنیادی طور پر شہریوں کو درپیش مالی پریشانیوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا مالی استحصال کرتی ہیں۔
“اس نوعیت کے فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی کو اس وجہ سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے یا ان کو ہی اس نقصان کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔”
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے افراد کو مشورہ دیں گے کہ وہ خاموش رہنے کی بجائے متعلقہ قانونی فورمز پر شکایت درج کروانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اس طرح کے نقصان سے بچانے کے لئے آگے آئیں تاکہ پونزی اسکیم اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نام پر جاری فراڈ کا خاتمہ ہو سکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ متعلقہ ادارے کسی فراڈ کی شکایت موصول ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے پیشگی انسدادی اقدامات کو مزید تیز کریں تاکہ شہریوں کو اس نوعیت کے فراڈ سے بچایا جا سکے۔
