اقبال سٹیڈیم میں بدعنوانی اور کرپشن کے سائے تلے 17 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی

فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں ساوتھ افریقہ اور پاکستان کی قومی ٹیموں کے مابین چار نومبر سے شروع ہونے والی تین میچز کی ون ڈے انٹرنیشنل سیریز سے 17 سال بعد یہاں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے جا رہی ہے۔
قبل ازیں یہاں 1978 سے 2008ء کے دوران 24 ٹیسٹ میچ اور 12 ون ڈے میچ کھیلے جا چکے ہیں اور اس سٹیڈیم سے بہت سے انٹرنیشنل کرکٹرز کی یادیں وابستہ ہیں۔
اقبال سٹیڈیم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پہلا انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ اکتوبر 1978 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین کھیلا گیا تھا جبکہ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گراؤنڈ پراب تک کا آخری ٹیسٹ میچ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین جنوری 2006 میں کھیلا گیا تھا۔
اس سٹیڈیم میں پہلا انٹرنیشنل ون ڈے میچ نومبر 1984 میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کھیلا گیا تھا جبکہ آخری ون ڈے اپریل 2008 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین کھیلا گیا تھا۔
یہاں 1979ء میں آسٹریلیا اور پاکستان کی ٹیموں کے مابین ایک دلچسپ ٹیسٹ میچ ہوا تھا جس میں اپنے وقت کے مایہ ناز فاسٹ باول ڈینس للی ایک بھی وکٹ حاصل نہیں کر سکے تھے۔
آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلنگ لیجنڈ ڈینس للی نے فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم (اس وقت لائل پور سٹیڈیم کے نام سے جانا جاتا تھا) کی پچ کو “باؤلرز کا قبرستان” قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے اپنے مایوسی کا اظہار انہوں نے اس طنزیہ تبصرے میں کیا تھا کہ “اگر میں مر گیا تو میں یہیں دفن ہونا چاہتا ہوں- کیونکہ اس پچ پر کبھی کچھ نہیں ہوتا!”۔
اس میچ میں پاکستان کے وکٹ کیپر تسلیم عارف نے پانچ دن پیڈ نہیں اتارے تھے کیونکہ پہلے دو دن انہوں نے بیٹنگ کی اور 210 سکور بنائے اور پھر باقی دن انہوں نے کیپنگ کی تھی۔
اقبال سٹیڈیم میں پاکستان کا ایک اور یادگار میچ 1986 میں ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے خلاف کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان نے سلیم ملک اور عبدالقادر کی شاندار کارکردگی کی بدولت فتح حاصل کی تھی۔
اس میچ میں میلکم مارشل نے بال مار کر سلیم ملک کا بازو توڑ دیا تھا، اس کے باوجود سلیم ملک نے ایک ہاتھ سے دوبارہ بیٹنگ کی اور پاکستان کو وہ میچ جتوایا۔
سلیم ملک نے ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ 41 منٹ تک بیٹنگ کی اور وسیم اکرم کے ساتھ 10ویں وکٹ کی شراکت کرتے ہوئے 32 رنز بنائے تھے۔
یہ میچ سپن بولر عبدالقادر کے لئے بھی یادگار تھا کیونکہ انہوں نے 16 رنز دے کر چھ کھلاڑی آؤٹ کرکے پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اقبال سٹیڈیم میں ایک اور یادگار واقعہ انگلینڈ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران 1987 میں پیش آیا تھا۔
انگلینڈ ٹیم کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے مابین ہونے والے اس جھگڑے کو کرکٹ کی تاریخ کے چند ناخوشگوار ترین واقعات میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اس میچ میں جب بولر بال کروانے لگا تو مائیک گیٹنگ نے اشارے سے فیلڈ تبدیل کروا دی جس کی وجہ سے شکور رانا نے نوبال دے دی۔ اس پر دونوں میں جھگڑا اتنا لمبا ہوا کہ کھیل رک گیا اور اگلے دن بھی میچ نہیں ہو سکا تھا۔
اسی طرح دسمبر 1998 میں یہاں ہونے والے پاکستان اور زمبابوے کے ٹیسٹ میچ میں پہلے چار دن شدید دھند رہی، جس کی وجہ سے پانچویں روز یہ ٹیسٹ میچ بغیر ایک بال کروائے ختم کر دیا گیا تھا۔
تین میچوں کی اس ٹیسٹ سیریز میں زمبابوے کی ٹیم پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ میچ جیت چکی تھی جبکہ لاہور میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹیسٹ میچ برابر رہا تھا۔
اس طرح فیصل آباد کا میچ بے نتیجہ ختم ہونے کے باعث زمبابوے کی ٹیم کو اپنی سرزمین سے باہر کسی دوسرے ملک میں پہلی ٹیسٹ سیریز اپنے نام کرنے کا موقع مل گیا۔
اقبال سٹیڈیم کے کیئرٹیکر نوید نذیر کے مطابق یہ سٹیڈیم 66-1965 میں تعمیر ہوا تھا اوراس کا پہلا نام لائل پور سٹیڈیم رکھا گیا تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے انٹرنیشنل سٹیڈیم اور پھر علامہ اقبال کے نام پر اقبال سٹیڈیم کر دیا گیا تھا۔
“1978 میں یہاں پہلا ٹیسٹ انڈیا اور پاکستان کا ہوا۔ اس سے پہلے تین روزہ میچ ہوتے رہے لیکن 1978 میں اسے ٹیسٹ سینٹر کا درجہ دیا گیا۔”
اس میچ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت سٹیڈیم میں شائقین کے بیٹھنے کے لیے سٹینڈز نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ سرکس کی طرح گراؤنڈ کے ارد گرد تختے لگا کرشائقین کو بٹھایا جاتا تھا۔
“آہستہ آہستہ نیچے دکانیں بننا شروع ہو گئیں اور پانچ، چھ مراحل میں یہ مکمل ہوا۔ 2005 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہاں فلڈ لائٹس لگائیں، جس کے بعد یہاں فلڈ لائٹس میں ون ڈے میچ ہونا شروع ہوگئے اور پھر 2011 میں الیکٹرانک سکور بورڈ لگایا گیا۔”
تاہم تین مارچ 2009ء کو لاہور میں سری لنکا کی قومی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد جہاں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ میچوں کا سلسلہ معطل ہوا وہیں اقبال سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن اور بہتری کا عمل بھی رک گیا اور آج اس سٹیڈیم کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہے۔

اقبال سٹیڈیم میں گزشتہ 17 سال کے دوران تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے پوری کرسیاں بھی نہیں لگائی جا سکی ہیں اور آج بھی سٹیڈیم کے 90 فیصد سٹینڈز میں تماشائیوں کو سیمنٹ سے بنے ہوئے سیڑھی نما سٹیپس پر بیٹھ کر میچ دیکھنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں تماشائیوں کو دھوپ، سردی اور بارش سے بچانے کے لئے سٹینڈز پر چھتیں بھی موجود نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کا یہ وینیو نہ تو پی سی بی کے زیرانتظام ہے، نہ اس پر پنجاب سپورٹس بورڈ کا کوئی کنٹرول ہے اور نہ ہی اسے پنجاب حکومت کے تحت چلایا جا رہا ہے بلکہ اسے اقبال سٹیڈیم مینجمنٹ کمیٹی کے تحت چلایا جا رہا ہے جس کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہے اور اس کے 20 دیگر اراکین میں سے آٹھ سرکاری افسران ہیں۔
ٹی این ایس نے سٹیڈیم سے حاصل ہونے والی آمدن اور اخراجات سے متعلق تفصیلات جاننے کے لئے دی پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت درخواست جمع کروائی تو آئی ایس ایم سی نے یہ دعوی کرتے ہوئے معلومات کی فراہمی سے انکار کر دیا کہ انہوں نے اقبال سٹیڈیم پنجاب گورنمنٹ سے 99 سال کی لیز پر لیا ہوا ہے اور وہ نان پبلک باڈی ہیں اس لئے ان پر آر ٹی آئی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
بعدازاں پنجاب انفارمیشن کمیشن کی طرف سے اس موقف کو مسترد کئے جانے پر جو جزوی معلومات فراہم کی گئیں ان کے مطابق اقبال سٹیڈیم سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن چھ کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد ہے جبکہ اخراجات تین کروڑ نو لاکھ روپے ہیں۔
تاہم اس آمدن اور اخراجات کی مزید تفصیلات اور سالانہ آڈٹ رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے سے بچنے کے لئے تاحال تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سٹیڈیم کے پرامیسز میں موجود سو سے زائد دکانوں اور دفاتر کے علاوہ 36 کنال 12 مرلے 250 سکوائر فٹ پر مشتمل ریسٹورنٹس، فوڈ کورٹ کے علاوہ فن لینڈ اور سند باد کے کرائے اور دیگر کمرشل سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدن صوبائی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے آئی ایس ایم سی کے اکاونٹ میں جاتی ہے۔
علاوہ ازیں آئی ایس ایم سی کی طرف سے ظاہر کی گئی کرائے کی آمدن مارکیٹ ریٹ کے حساب سے انتہائی کم بلکہ معمولی ہے کیونکہ اقبال سٹیڈیم شہر کے پوش علاقے میں واقع ہے اور اس کے گردو نواح میں موجود دکانوں، دفاتر اور دیگر پراپرٹیز کا کرایہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس حوالے سے سول لائن میں پراپرٹی کی خرید وفروخت سے وابستہ پراپرٹی ڈیلر محمد ریاض نے بتایا ہے کہ اقبال سٹیڈیم میں دکان یا دفتر کرائے پر لینے کے لئے کرائے سے زیادہ انتظامیہ سے تعلقات اہمیت رکھتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں نے مبینہ طور پر رشوت دے کر یا سفارش کروا کر معمولی کرائے پر دکانیں، دفاتر اور دیگر کمرشل پراپرٹی لی ہوئی ہے۔
اقبال سٹیڈیم میں کام کرنے والے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کیئر ٹیکر نے بہت سی دکانیں اور دفاتر معمولی کرائے پر یا مفت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو الاٹ کئے ہوئے ہیں جبکہ کرائے پر دی گئی دیگر کمرشل پراپرٹیز سے بھی وہ ذاتی حیثیت میں مالی فائدہ لینے میں ملوث ہے۔
فیصل آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اور ریلوے کرکٹ کلب کے صدر طارق فرید کے مطابق وہ 17 سال بعد فیصل آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر خوش تو ہیں لیکن انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ اس سٹیڈیم سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدن کو اس کی اپ گریڈیشن پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔
“اتنے طویل عرصے تک فیصل آباد میں انٹرنیشنل میچز نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ سٹیڈیم کا اپ گریڈ نہ ہونا ہے۔ اس میں کمیاں ہیں، انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار کے مطابق وہ چیزیں نہیں ہیں جو موجود ہونی چاہیے۔”
سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لئے سہولیات کی کمی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ “ابھی تک ہم اس میں پوری کرسیاں نہیں لگا سکے ہیں، چھتیں نہیں لگا سکے ہیں۔ اسے صیح طریقے سے مکمل سٹیڈیم بنانا چاہیے۔ ادھر تو پینے کا پانی نہیں ہے۔”
آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ سال مئی کے دوران اقبال سٹیڈیم میں ہونے والے چیمپئن کپ 2024 کے انعقاد پر بھی اقبال سٹیڈیم مینجمنٹ کمیٹی نے ایک روپے کے اخراجات نہیں کئے ہیں بلکہ اس دوران میچز دیکھنے کے لیے آنے والے تماشائیوں سے سٹیڈیم میں لگائے گئے کھانے، پینے کی اشیاء کے سٹالز کے ذریعے اوور چارجنگ کرکے لاکھوں روپے اضافی کمائے گئے ہیں۔
دوسری طرف پی سی بی نے اس ایونٹ سے صرف گیٹ منی کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی رقم حاصل کی اور مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ روپے سے زائد کا منافع کمایا لیکن سٹیڈیم کی بہتری کے لئے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
حتی کہ ٹورنامنٹ اور ٹیموں کی سکیورٹی انتظامات کی مد میں فیصل آباد پولیس کو ساڑھے تین کروڑ روپے سے زائد کی رقم بھی صوبائی حکومت نے ٹیکس پیئرز سے اکٹھے کئے گئے محصولات سے ادا کی ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقبال سٹیڈیم مینجمنٹ کمیٹی اور پی سی بی کا واحد مقصد اقبال سٹیڈیم سے آمدن کا حصول ہے۔
اس حوالے سے پی سی بی حکام کا دعوی ہے کہ وہ سٹیڈیم کو اپ گریڈ کرنے کے لئے آئی ایس ایم سی سے متعدد میٹنگز کر چکے ہیں لیکن وہ اس کا سٹیڈیم کا کنٹرول پی سی بی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پی سی بی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کے لئے اقدامات کرنے اور فنڈز مہیا کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری طرف اقبال سٹیڈیم کے کیئر ٹیکر کا کہنا ہے کہ “یہ سٹیڈیم پی سی بی کے پاس نہیں ہے، پی سی بی والے مانگ رہے ہیں 2006 سے لیکن ہماری ضلعی انتظامیہ اسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔”
اس حوالے سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ پی سی بی سے رجسٹرڈ کرکٹ کلبز کو بھی یہاں میچ کھیلنے کے لئے بھاری فیس کی ادائیگی کے بغیر کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے جبکہ نجی کاروباری اداروں اور تنظیموں کو انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں تقریبات منعقد کرنے کی کھلی اجازت ہے اور خود ضلعی انتظامیہ بھی اس انٹرنیشنل گراونڈ پر جشن بہاراں، کبڈی میچ اور دیگر تقریبات منعقد کرتی رہی ہے۔
فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے مقامی کرکٹر محمد سلمان کا کہنا ہے کہ اقبال سٹیڈیم میں طویل عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے اور کرکٹ کلبز کو کھیلنے کے لئے مناسب سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث فیصل آباد میں کرکٹ مسلسل زوال پذیر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد میں جب بھی کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو اقبال سٹڈیم شائقین سے فل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ شہر کرکٹ سے محبت کرنے والوں کا شہر ہے اور اس نے بہت بڑے بڑے کرکٹر پیدا کئے ہیں۔
“اگر پنجاب حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ اس ریجن میں فرسٹ کلاس کرکٹ کو صیح معنوں میں بحال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اقبال سٹیڈیم کو پنجاب سپورٹس بورڈ یا پی سی بی کے تحت کیا جائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن کسی کی ذاتی جیب میں جانے کی بجائے سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن اور مقامی سطح پر کرکٹ کے فروغ کے لئے استعمال کی جا سکے۔”

Author

  • نعیم احمد ایک تحقیقاتی صحافی ہیں جو سماجی مسائل پر لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں خاص طور پر پسماندہ طبقات کے حقوق کی وکالت پر زور دیتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں