فیصل آباد اگر چہ اپنے قیام سے ہی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک ممتاز مقام کا حامل رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل لائلپور کاٹن ملز میں ہونے والے کل ہند مشاعروں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ شہر علمی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ اس حوالے سے زرعی یونیورسٹی اور ماضی کے گورنمنٹ کالج میں اعلی پائے کے ادبی پروگرام ہوتے رہے۔ فیصل آباد آرٹس کونسل کے قیام سے یہ سلسلہ یہاں منتقل ہو گیا۔ اس کے علاوہ گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں میں موجود مختلف ہوٹلوں اور چائے خانوں میں ہونے والی ادبی نشستوں کی ایک الگ تاریخ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف مقامی ادبی تنظیموں نے بھی اپنی اپنی سطح پر اس ادبی منظر نامے میں رنگ بھرے اور شہر کی سماجی زندگی کو پر رونق بنا رکھا ہے۔ اسی دوران گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستانی ادب نے مغربی رنگ ڈھنگ اپنانا شروع کیا اور اس کے نتیجے میں لٹریری فیسٹیول کی روایت نے جنم لیا۔
فیصل آباد میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں لائل پور لٹریری کونسل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے روح رواں اور صدر معروف صنعتکار مصدق ذوالقرنین خود بھی ادب دوست شخصیت ہیں۔ ان کی مسلسل کاوشوں اور توجہ سے اب فیصل آباد میں ہونے والا لائلپور پنجابی سلیکھ میلہ پنجابی زبان وادب کے فروغ کا اہم ذریعہ بن گیاہے۔ لائل پور لٹریری کونسل اور انٹرلوپ لمٹیڈ کے اشتراک سے ہونے والا نوواں لائلپور پنجابی سلیکھ میلہ فروری کے آخری ہفتے نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم میں دو روز جاری رہا جس میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے پنجابی زبان وادب اور تاریخ پر کام کرنے والے ادیب، محققین اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔
سلیکھ میلے کا افتتاح لائل پور لٹریری کونسل کے صدر مصدق ذوالقرنین نے کیا۔ افتتاحی تقریب کا آغاز تیمور افغانی کی ہیر گائیکی سے ہوا جبکہ توحید چٹھہ نے تعارفی کلمات ادا کئے۔ مصدق ذوالقرنین نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ لائلپور پنجابی سلیکھ میلہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پنجابی زبان وادب کے فروغ کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم یا فرد کے لئے اپنی مادری زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لٹریچر فیسٹیول کی وجہ سے پنجابی زبان بولنے اور اس پر فخر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان نسل بھی اس کی اہمیت سے آگاہ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا لائلپور لٹریری کونسل اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان وادب کے فروغ کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ افتتاحی تقریب میں اقبال قیصر کی کتاب”فلم تے لہور” اور امر دیپ سنگھ کی کتاب “کھوئی ہوئی میراث ۔ پاکستان میں سکھوں کا ورثہ” کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ بعدازاں اجوکا تھیٹر کی طرف سے”انی مائی دا سفنا” کے عنوان سے سٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا۔
سلیکھ میلے کے آخری روز پہلا سیشن “پنجابی زبان دی ڈیجٹلائزیشن” کے موضوع پر ہوا۔ اس سیشن میں ڈاکٹر عاصم محمود، محمد فرخ ارسلان اور ڈاکٹر جمیل پال شریک گفتگو ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجٹلائزیشن کے عمل نے پنجابی زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بہت سے پنجابیوں نے اپنی ماں بولی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور اس وقت ڈیجٹل میڈیا پر پنجابی زبان کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ دوسرا سیشن “ترجمہ کاری دیاں لوڑاں تھوڑاں” کے عنوان سے تھا۔ اس سیشن میں پروفیسر زبیر احمد، ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی، ڈاکٹر عبدالعزیز ملک اور ڈاکٹر غلام مرتضی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی زبان میں دیگر زبانوں کا ادب اور شاعری بہت کم ترجمہ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر افضل احسن رندھاو نے افریقی ادب کے ترجمے میں قابل قدر کام کیا تھا جسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تیسرے سیشن میں سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کے حوالے سے بنائی گئی ڈاکیومنٹری “آر نانک، پارنانک” دکھائی گئی۔ اس سیشن میں ڈاکیومنٹری میں بابا گورو نانک کا کلام پیش کرنے والی فنکارہ سلیمہ خواجہ، پروڈیوسر امردیپ سنگھ اور ان کے معاون فیضان نقوی نے ڈاکیومنٹری کی تیاری اور اس حوالے سے پیش آنے والے واقعات سے متعلق اظہار خیال کیا۔
چوتھا سیشن “پنجاب دے مکدےدریا” کے عنوان سے تھا جس میں ڈاکٹر عرفان چوہدری، ڈاکٹر روبینہ شعیب، ڈاکٹر پرویز ونڈل اور نین سکھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے دریا ناصرف اس خطے کی پہچان ہیں بلکہ یہ اس کی ثقافت اور یہاں رہنے والوں کی زندگی کا بنیاد ی جز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور پنجابیوں کی بقا ان دریاوں کی بحالی و تحفظ سے جڑی وہئی ہے۔ پانچویں سیشن میں “پنجابی فلم کل تے اج” کے موضوع پر اقبال قیصر، شہزاد جوئیہ، ڈاکٹر سمیر اکبر، ڈاکٹر ساجد جاوید چوہدری اور شوذب عسکری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلم کسی بھی زبان کے فروغ کا اہم میڈیم ہے اور پنجابی فلم انڈسٹری کو اس اہم پہلو پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آخری سیشن میں “پنجاب سٹڈی سنٹر دی لوڑ” کے موضوع پر سیشن ہوا جس میں ڈاکٹر یعقوب بنگش، ڈاکٹر علی عثمان قاسمی، ڈاکٹر نبیلہ رحمان اور ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق نے کہا کہ پنجابی زبان کو بطور ایک زبان رائج کرنے اور ترقی دینے کے لئے پنجاب سٹڈی سنٹر کا قیام ناگزیر ہے۔ لائلپور پنجابی سلیکھ میلے کا اختتام اجوکا تھیٹر کے کھیل “بلھا ” سے ہوا۔ سلیکھ میلے میں دونوں دن شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ انہیں پنجابی زبان وادب اور تاریخ پر کام کرنے والے ادیبوں، محققین اور دیگر اہم شخصیات کی پرمغز گفتگو سننے کا موقع ملا۔ شرکاء نے اجوکا تھیٹر کی جانب سے پیش کئے جانے والے ناٹک اور بابا گورو نانک کی زندگی پر دکھائی جانے والی ڈاکیومنٹری کو بھی بہت زیادہ پسند کیا۔
