جڑانوالہ کی اضافی آبادی چک 61 گ، ب کے رہائشی ذوہیب دانیال گزشتہ دو سال سے بیروزگار ہیں اس سے پہلے وہ اپنے علاقے میں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا کام کرتے تھے۔
تاہم 16 اگست 2023 کو جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے دوران ناصرف ان کا دفتر جلا دیا گیا بلکہ اس سے ملحق گرجا گھر کو بھی ڈنڈوں سے مسلح ہجوم نے کرین کی مدد سے منہدم کر دیا تھا۔
انہوں نے ٹی این ایس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ دو سال سے اس واقعہ میں ملوث ملزموں کو سزا دلوانے کے لئے تھانے اور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
“ایف آئی آر درج کروانے کے لئے ہم کئی روز تک تھانہ صدر کے چکر لگاتے رہے، تقریبا ایک ہفتے بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ چرچ میں انتظار کریں پولیس آپ کے پاس خود آ رہی لیکن جب رات تین، چار بجے تک انتظار کرنے کے بعد بھی کوئی نہ آیا تو ہم گھر واپس آ گئے اور اگلے دن پتہ چلا کہ پولیس نے کسی اور کو مدعی بنا کر ایف آئی آر درج کر لی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ چرچ کو کرین کے ذریعے مسمار کرنے والا ملزم ان کے گاوں کا ہی رہائشی ہے اور ان کا کلاس فیلو رہ چکا ہے۔
“جب میری نشاندہی پر پولیس نے اسے گرفتار کیا تو اس کی رہائی کے لئے مجھ پر بہت دباو ڈالا گیا، دھمکیاں دی گئی اور مختلف مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی گئی لیکن میں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔”
انہوں نے بتایا کہ اس سانحے کے بعد حکومت کے کسی نمائندے یا افسر نے انہیں امدادی رقم کی فراہمی کے لئے رابطہ نہیں کیا۔
“میں نے متعدد جگہ پر ملازمت کی کوشش کی ہے لیکن مجھے ملازمت نہیں ملی جس کی وجہ سے گزشتہ دو برس سے میرے اور میرے اہلخانہ کے اخراجات میرے والد ہی پورے کر رہے ہیں جو کہ خود برف کے کارخانے میں ملازمت کرتے ہیں۔”
وہ بتاتے ہیں کہ سانحہ جڑانوالہ کے بعد درج ہونے والی متعدد ایف آئی آرز کے مدعیوں کو پیسے دے کر یا دباو ڈال کر مقدمات کی پیروی سے روک دیا گیا ہے اور زیادہ تر ملزم یا تو ضمانت پر ہیں یا انہیں پولیس نے تفتیش میں بیگناہ قرار دے کر چھوڑ دیا ہے۔
“مجھے بھی پیشکش کی گئی تھی کہ آپ کا نقصان پورا کر دیتے ہیں، آپ کو دفتر بھی دوبارہ سے بنا دیں گے لیکن میں اب تک اپنے کیس کی پیروی کر رہا ہوں اور میری پوری کوشش ہے کہ ملزموں کو قانون کے مطابق سزا ملے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی گھناونی حرکت کرنے کا نہ سوچے۔”
ذوہیب کا اس واقعہ میں ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو برس میں سانحہ جڑانوالہ میں ملوث کسی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی ہے۔
فیصل آباد پولیس سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے 23 مقدمات درج کئے گئے تھے جن میں 142 ملزم نامزد اور 5255 نامعلوم تھے۔
ابتدائی طور پر پولیس نے 138 نامزد اور 255 نامعلوم ملزموں کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے 255 ملزموں کی شناخت پریڈ ہوئی جس کے بعد 79 ملزموں کو ڈسچارج اور 314 کو جوڈیشل کر دیا گیا۔
علاوہ ازیں 309 ملزموں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے اور ایک ملزم جیل میں ہے جبکہ دو سال میں نامزد ملزموں میں سے تین اور نامعلوم ملزموں میں سے پانچ ہزار گرفتار نہیں کئے جا سکے ہیں۔ ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیئے گئے ملزموں کی تعداد تین ہے۔
فیصل آباد پولیس کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 17 مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں جبکہ تین مقدمات داخل دفتر کئے جا چکے ہیں۔
علاوہ ازیں گواہان منحرف ہونے پر تھانہ لنڈیانوالہ میں درج مقدمہ نمبر 467 کے سات جبکہ تھانہ صدر جڑانوالہ میں درج مقدمہ نمبر 1295 کے دو ملزم بری ہو چکے ہیں۔
پولیس کے مطابق ابتک صرف ایک مقدمے کی سماعت مکمل ہوئی ہے جو کہ تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درج ایف آئی آر نمبر 1258 ہے۔ اس میں توہین مذہب کے الزام میں ایک ملزم پرویز کوڈو کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
علاوہ ازیں چار ملزموں عمر سلیم، عمیر سلیم، شاہد آفتاب اور دواد ولیئم کو 18 اپریل 2025 کو اس مقدمہ سے بری کر دیا گیا تھا جبکہ دو ملزموں رابرٹ کارلوس عرف راکی راجہ اور پطرس عامر مسیح کو 12 ستمبر 2023 کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔
دوسری طرف ڈپٹی کمشنر فیصل آباد ندیم ناصر کا دعوی ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کے تمام متاثرین کو امدادی رقم فراہم کی جا چکی ہے۔
“سانحہ جڑانوالہ میں 84 عمارتیں متاثر ہوئی تھیں جن میں 22 چرچ اور تین پادریوں کی رہائش گاہیں بھی شامل تھیں اور ان افراد کو 20 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے امدادی رقم فراہم کی جا چکی ہے جبکہ 22 گرجا گھروں کی مرمت و بحالی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔”
متاثرین کو امدادی رقم کی فراہمی سے متعلق ڈپٹی کمشنر آفس سے فراہم کئے گئے ریکارڈ کے مطابق 80 متاثرین کو امدادی چیک 19 اگست 2023ء کو جبکہ چار متاثرین پرویز مسیح، بلی گراہم، خالد مختار اور امجد مہندر کو 13 فروری 2024 کو امدادی چیک جاری کئے گئے ہیں۔
تاہم جن افراد کو امدادی رقم فراہم کی گئی یا جن گرجا گھروں میں مرمت کا کام کیا گیا ہے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
پیس مشن انٹرنیشنل چرچ چک 120 گ، ب کے منتظم نوید مختار کے مطابق 16 دسمبر 2023 کو ہونے والے فسادات میں ان کے چرچ کو بھی آگ لگانے کے بعد کرین سے مسمار کر دیا گیا تھا۔
“اس سانحے کے بعد اگرچہ حکومت نے چرچ کی مرمت کروائی تھی لیکن حالیہ بارشوں میں عمارت کی چھت لیک ہونے کے بعد درمیان سے بیٹھ گئی ہے اور اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جبکہ ساونڈ سسٹم کو بھی نقصان پہنچا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ ان کے چرچ کو مسمار کرنے والے ملزموں میں سے تاحال کسی کو سزا نہیں ہو سکی ہے بلکہ وہ لوگ گاوں میں کھلے عام پھرتے ہیں اور انہیں اپنے خلاف کاروائی سے باز رہنے کے لئے دھمکیاں دیتے ہیں۔
کرسچن کالونی جڑانوالہ کی رہائشی ممتاز بی بی ان متاثرین میں شامل ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے 20 لاکھ کا چیک ملا تھا لیکن وہ بتاتی ہیں کہ اس رقم سے ان کے گھر کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔
ممتاز کا کہنا ہے کہ “میرے خاوند تین سال قبل ریٹائر ہوئے تھے اور ہم نے ان کی پینشن سے یہ گھر تعمیر کیا تھا۔ وہ اب وفات پا چکے ہیں اور میں پائی پائی جوڑ کر پھر سے اس گھر کی مرمت مکمل کروا رہی ہوں لیکن ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ وہ شیطان پھر نہ آ جائیں۔”
ان کا گھر سینٹ جونز چرچ کے بالکل سامنے ہے جبکہ جن دو افراد پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا وہ اسی چرچ کی عقبی گلی میں رہائش پذیر تھے۔
ممتاز بتاتی ہیں کہ اس وقت پولیس نے خود ان کی گلی میں آکر لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ ہجوم بہت زیادہ ہے اور وہ انہیں روک نہیں سکیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ “اگر اس دن پولیس مظاہرین کو جمع ہونے سے پہلے ہی حفاظتی انتظامات کر لیتی تو شاید ہمارے گھر اور مال اسباب بچ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔”
سانحہ جڑانوالہ میں پولیس کی طرف سے ہجوم کو جلاو گھیراو سے روکنے میں ناکامی، ملوث ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی کو انجام تک پہنچانے میں پولیس کو درپیش چیلنجز اور نامزد ملزموں کی جانب سے کروائی جانے والی قبل از گرفتاری ضمانتوں کی منسوخی کے سوال پر جب ٹی این ایس نے سٹی پولیس آفیسر صاحبزادہ بلال عمر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ “پولیس نے مجرموں کو گرفتار کر لیا ہے، وہ ٹرائل سے گزر رہے ہیں، آپ کو اس حقیقت پر توجہ دینی چاہیے کہ پولیس ہمہ وقت چوکس رہی ہے اور بے شمار چیلنجوں کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے امن و امان برقرار رکھا ہوا ہے۔”
سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کی طرف سے پولیس کے بارے میں خدشات کی تصدیق سپیشل برانچ کی ایک خفیہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جو کہ 16 اگست 2023 کو پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پرتشدد احتجاج میں ٹی ایل پی کے تقریبا 1500، سنی تحریک کے 500 اور 500 عام لوگ شامل تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ صبح پانچ بجے پیش آیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے آٹھ بجے تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے مشتعل افراد اکٹھے ہوتے رہے اور باقی عوام کو بھی موقع پر پہنچنے کا کہتے رہے۔ مقامی پولیس کی اس سستی اور نااہلی کی وجہ سے ہجوم بڑھتا گیا جو بعدازاں زیادہ مشتعل ہوا اور پولیس کے قابو سے باہر ہو گیا۔
علاوہ ازیں سپیشل برانچ کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے استعمال پر زور دینے کے باوجود شیلنگ میں تاخیر سے کام لیا گیا اور شام کو چھ بج کر 45 منٹ پر شیلنگ کی گئی جس سے مظاہرین کی پرتشدد کاروائیوں میں فوری کمی آئی اور وہ پولیس کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادہ ہوئے۔
رپورٹ میں تحریر ہے کہ مذاکرات کے بعد ٹی ایل پی کے ریجنل امیر اکمل حسن شاہ نے سینما چوک میں سی پی او عثمان اکرم گوندل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو کہا کہ “ہمارے انتظامیہ کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ منصور صادق ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے، شوکت سندھو مسیح اسٹنٹ کمشنر جڑانوالہ کو کلوز کر دیا گیا ہے اور بے حرمتی کرنے والوں پر ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ اس کے بعد دیہات سے آئے ہوئے تقریبا 1300 سے 1400 کارکنان ٹرالوں پر واپس چلے گئے جبکہ مقامی شہر کے لوگ جن کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار تھی وہ گلی کوچوں میں احتجاج کرتے رہے۔ ”
سپیشل برانچ کی رپورٹ میں جن مرکزی ملزموں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سٹی جڑانوالہ کا رہائشی محمد یسین بھی شامل ہے جس نے چک 102 ر، ب کی مسجد بہار مدینہ کے لاوڈ اسپیکرز سے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو کرسچن کمیونٹی کے گرجا گھروں کو مسمار کرنے کے لئے اکسایا تھا۔
اسی طرح چک 102 ر، ب کے رہائشی ٹی ایل پی کے سینئر کارکن شبیر احمد قادری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بس میں 50، 60 بندے لے کر احتجاج کے لئے جڑانوالہ شہر روانہ ہوا اور روانگی سے پہلے اس نے بھی مسجد میں اعلان کیا کہ “باقی غیور مسلمان بھی احتجاج میں شریک ہونے کے لئے جڑانوالہ شہر پہنچیں۔”
رپورٹ میں ٹی ایل پی کے لیاقت علی گجر امیدوار ایم پی اے پی پی 114 کے بارے میں تحریر ہے کہ اس نے ٹی ایل پی ورکرز کے ہمراہ آبادی عیسی نگری میں 14، 15 کرسچن گھروں اور تین چرچز کو آگ لگا کر نذر آتش کیا تھا۔
سپیشل برانچ کی رپورٹ میں کرسچن کمیونٹی کے 80 گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ بھی شامل ہے۔ تاہم یہ تخمینہ کس طرح لگایا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فہرست میں دی گئی تفصیل کے مطابق سیریل نمبر 11،12،13 کے گھروں میں ایک جیسی اشیاء “پنکھا، استری، لال پمپ، دو بیڈ سیٹ، کپڑے، چار کوٹ، ٹی وی، فریج، واشنگ مشین اور دیگر گھریلو سامان” کے نقصان کا تخمینہ بالترتیب پانچ لاکھ 56 ہزار، 31 لاکھ 40 ہزار اور سات لاکھ چھ ہزار روپے لگایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں سپیشل برانچ کی تیاری کی گئی اس فہرست میں بہت سے متاثرین ایسے ہیں جن کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے جنہیں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے 20 لاکھ روپے فی کس کی مالی امداد کے چیک دیئے گئے ہیں۔
ایمپلیمنٹیشن آف مینارٹی رائٹس فورم کے چیئرمین سیموئل پیارا جڑانوالہ سانحہ کے متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے 2023 سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے خود سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا تھا کہ ہر متاثرہ فیملی کو اس کے سربراہ کے ذریعے 20 لاکھ روپے کمپنسیشن دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحے میں مجموعی طور پر 26 گرجا گھروں اور 148 رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا مگر ضلعی انتظامیہ نے صرف 19 گرجا گھروں میں بحالی کا کام کرایا اور 80 کے قریب مکان مالکان کو امدادی رقم دی ہے۔
“کسی گھر میں اگر تین فیملیاں رہائش پذیر تھیں تو اس میں سے ایک کو پیسے مل گئے ہیں دو کو نہیں ملے، اس کے علاوہ جن دو بچوں عامر اور راکی راجہ پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا اور بعد میں وہ اس سے باعزت بری ہو گئے تھے۔ ان کے تین گھر جلائے گئے تھے لیکن انہیں بھی کمپنسیشن نہیں دی جا رہی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ جن کیسز میں کچھ ملزم بری ہوئے ان کا مال مقدمہ تب تک ضائع نہیں کیا جائے گا جب تک ان مقدمات میں مطلوب دیگر ملزم یا اشتہاری گرفتار نہیں ہو جاتے ہیں۔
“اس لئے ابھی تک کوئی کیس مکمل نہیں ہوا ہے بلکہ گرفتار ملزموں کی تعداد بھی 400 سے کم ہے جن میں سے زیادہ تر ضمانت پر ہیں۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جن ملزموں کو ہم نے نامزد کیا ہے انہیں گرفتار کیا جائے۔”
ان کا کہنا تھا کہ چرچز کو جلانے کے لئے مسجد میں اعلان کرنے والے ملزم کو عدالت نے یہ کہہ کر ضمانت دیدی کہ “اس نے یہ نہیں کہا کہ آگ لگائیں، اس نے صرف اعلان کیا ہے”۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ “جس ملزم نے کرین سے چرچز کو مسمار کیا تھا اسے بھی ہائیکورٹ سے ضمانت مل گئی تھی لیکن بعد میں ہم نے شہادتیں کروا کے اس کی ضمانت کینسل کروائی اور اب وہ جیل میں ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ جن ملزموں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہوئی ہیں وہ ریاست نے کینسل کروانی ہیں اور اس میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 7ATAکے ملزموں کو ضمانت قبل از گرفتاری کیسے مل گئیں؟
“پنجاب گورنمنٹ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کر رہی ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی یہ حکم دے چکے ہیں کہ ہیٹ سپیچ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے لیکن ان کے حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔”
