فیصل آباد سمیت پاکستان میں علمی و ادبی تقریبات اور مکالمے کے مواقع کم ہوتے ہوتے ناپید ہو چکے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت اور شدت پسندی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں میں پرامن بقائے باہمی پر مبنی تبادلہ خیال اور دوسروں کی رائے کے احترام کی بجائے ہر کسی پر اپنا نظریہ تھوپنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ایسے ادارے جن کا کام علم و ادب اور تحقیق کو فروغ دینا ہے وہ اپنا فریضہ ادا کرنے کی بجائے مختلف گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماج کے صاحب ثروت طبقے نے بھی ادب اور ادیب کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ان حالات کے باوجود جو ادارے اور افراد آج بھی شہریوں کی ذہنی آبیاری کے لئے علمی مجلسیں منعقد کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں وہ بلاشبہ سماج کے محسن ہیں۔
لائل پور لٹریری کونسل ایسے ہی روشن دماغ افراد کا گلدستہ ہے جو گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے فیصل آباد میں ادبی محفلوں کے انعقاد کے لئے متحرک ہے۔ اس سلسلے کا آغاز 2015ء میں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے انعقاد سے ہوا تھا۔ بعدازاں اس پلیٹ فارم سے لائلپور پنجابی سلیکھ میلہ کے انعقاد کی سرپرستی شروع ہوئی اور اب لائل پور لٹریری کونسل نے فیصل آباد میں “انٹرنیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس” منعقد کرکے اپنے سفر میں ایک اور سنگ میل طے کر لیا ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز میں دو روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرون ملک امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا سے آئے ہوئے تاریخ دانوں، محققین اور دانشوروں نے لائلپور اور اس خطے کی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے پرمغز مقالے پیش کئے۔
اس کانفرنس نے پاکستان میں علاقائی تاریخ کے تحفظ اور فروغ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس کے تحفظ کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ یہ اہم واقعہ فیصل آباد کی فکری شناخت قائم کرنے کی طرف ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے، ایک ایسا شہر جو پہلے ہی اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اس کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو ظاہر کرنے میں ایک نمایاں پیشرفت ہے۔ اس کانفرنس کو لائل پور سے تعلق رکھنے والے معروف مورخ ڈاکٹر کے کے عزیز کو معنون کیا گیا تھا جو کہ سرکاری بیانیے کے برعکس حقیقی تاریخ کو اپنی تحریروں کا موضوع بنانے کے حوالے سے معروف تھے۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انٹرنیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس کے انعقاد نے نہ صرف لائل پور کی بھرپور تاریخی اور ثقافتی میراث پر روشنی ڈالی ہے بلکہ ماضی کی مزید جامع تفہیم کی تشکیل میں علاقائی تاریخ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس طرح کی تقریبات کے ذریعے فیصل آباد فکری منظر نامے پر اپنا بھرپور نقش ثبت کرنے کے لئے پوری طرح تیار نظر آتا ہے اور یہ اقدام آنے والی نسلوں کو اپنے ورثے کو تلاش کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کی ترغیب دے گا۔
انٹرنیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس میں ہونے والے ان مباحثوں نے نہ صرف خطے کی تاریخی اور ثقافتی میراث کی تفہیم کو گہرائی عطا کی ہے بلکہ ماضی کے بارے میں ایک باریک بینی اور جامع نظریہ کی تشکیل میں علاقائی تاریخ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس کانفرنس نے پاکستان میں فیصل آباد کو ایک اہم فکری مرکز کی شناخت دی ہے جو آنے والی نسلوں کو اپنے شاندار ورثے کو تلاش کرنے اور اسے محفوظ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انٹرنیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس میں لائل پور کی مزدور تحریکیں، اقلیتوں کے حقوق، خطے کی تقسیم اور ہجرت کے اثرات، موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز، خطے کی ترقی میں خواتین کا کردار، تعلیمی منظرنامے کا ارتقا، لاہور دربار کا عروج زوال اور شہر کے تعمیراتی بیانیے سمیت بہت سے اہم موضوعات پر تحقیقی مقالے پیش کئے گئے۔ اس سے کانفرنس کے شرکاء کو اپنے شہر اور اس کی تاریخ کے حوالے سے بہت کچھ نیا جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔
کانفرنس کے شرکاء نے انٹرنیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس کے انعقاد کو فیصل آباد ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا بھی ایک یادگار باب قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے لائل پور لٹریری کونسل کے صدر اور ملک کے معروف صنعتکار مصدق ذوالقرنین کا ذکر ضروری ہے جن کی ذاتی توجہ، انتھک محنت اور بھرپور مالی تعاون سے اس عالمی سطح کی کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا۔ انہوں نے ناصرف اس کانفرنس کے انتظام و انصرام کے ہر پہلو کو اپنی توجہ سے یادگار بنایا بلکہ دو روز تک کانفرنس کے ہر سیشن میں خود بھی شریک رہے اور افتتاحی سیشن میں کانفرنس کے انعقاد اور علاقائی تاریخ کی اہمیت پر سیر حاصل بحث کرکے دنیا بھر سے آئے ہوئے مورخین اور محققین سے داد پائی۔
یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اگر ہمارے ملک کے دیگر صاحب ثروت افراد بھی اس طرح فکری نشستوں کے اہتمام کے لئے اپنا سرمایہ اور وقت دیں تو معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی، شدت پسندی اور عدم برداشت کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی محفلوں میں شرکت سے ہماری نوجوان نسل کو بھی اپنی بات کہنے اور دوسروں کی بات کو تہذیب اور احترام سے سن کر اختلاف کرنے کا سلیقہ سیکھنے کو ملے گا۔ اس کانفرنس کو فیصل آباد میں ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر ایک اہم سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے ناصرف لائلپور کی مٹتی ہوئی تاریخ اور ثقافت کے تحفظ کا جذبہ بیدار ہوا ہے بلکہ اس کانفرنس نے فیصل آباد کو پاکستان کے فکری اور ثقافتی حلقوں میں ایک کلیدی کھلاڑی کی حیثیت دلوا دی ہے۔
