اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے ساوتھ افریقہ سے ہونے والی ون ڈے سیریز جیت کر اس وینیو پر 17 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کو یادگار بنا دیا ہے۔
چار سے آٹھ نومبر تک جاری رہنے والی اس ون ڈے سیریز کے تمام میچز میں سٹیڈیم فل رہا اور فیصل آباد کے کرکٹ شائقین نے طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کو شاندار انداز میں ویلکم کیا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ رہی کہ شائقین کرکٹ نے پاکستان کی ٹیم کے ساتھ ساتھ ساوتھ افریقہ کی ٹیم کو بھی بھرپور سپورٹ کیا جس کی وجہ سے ساوتھ افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی اقبال سٹیڈیم میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔
تینوں میچز میں شائقین کی شدید خواہش کے باوجود اگرچہ پاکستان کے سٹار بیٹسمین بابر اعظم قابل ذکر اننگز کھیلنے میں ناکام رہے لیکن اس کے باوجود تینوں میچوں میں سٹیڈیم بابر، بابر کے نعروں سے گونجتا رہا اور ہر دفعہ ان کے جلدی آوٹ ہونے پر شائقین کرکٹ کی بڑی تعداد مایوس ہو کر میچ ختم ہونے سے قبل ہی گھروں کو واپس جاتی نظر آئی۔
فیصل آباد کے شائقین کرکٹ جہاں طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی پر خوش نظر آئے وہیں سخت سکیورٹی انتظامات کے باعث سٹیڈیم اور سرینا ہوٹل کے اردگرد کے علاقے کئی دن تک ٹریفک کی آمد و رفت کے باعث بند رہنے کی وجہ سے عام شہریوں کو پریشانی کا سامنا رہا۔
علاوہ ازیں میچ دیکھنے کے لئے آنے والے کرکٹ شائقین کے لئے شہر کے تین مقامات دھوبی گھاٹ گراونڈ، زرعی یونیورسٹی گراونڈ اور محکمہ انہار کے ہیڈ آفس کے گراونڈ میں پارکنگ سٹیڈز بنائے گئے تھے جہاں سے شہریوں کو بسوں کے ذریعے سٹیڈیم تک لیجانے اور واپس لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم زیادہ تر کرکٹ شائقین کو فری بس سروس کی سہولت میسر نہیں آئی اور انہیں کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر سٹیڈیم تک آنا پڑا جبکہ میچ دیکھنے کے لئے آنے والے بزرگ افراد اور افراد باہم معذوری کو بھی سٹیڈیم تک سواری پر آنے جانے کے لئے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی تھی۔
میچ دیکھنے کے لئے آنے والے ایک سپیشل پرسن محمد ارشد نے بتایا کہ وہ بیساکھیوں کے سہارے تقریبا دو کلومیٹر سے زائد کا راستہ چل کر سٹیڈیم تک پہنچے ہیں۔
“ہم جیسے سپیشل پرسنز کو اوور لک کیا جا رہا ہے، ہمیں کچھ نہ کچھ یہاں پر فسلیٹیٹ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ہم باآسانی سٹیڈیم تک پہنچ سکتے اور اس میچ کو انجوائے کر سکتے۔”
انہوں نے پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی سے مطالبہ کیا کہ آئندہ جہاں بھی انٹرنیشنل میچز ہو وہاں سپیشل پرسنز کی آمدو رفت کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں۔
سمن آباد سے تعلق رکھنے والے کرکٹ شائق ناصر آفریدی نے بتایا کہ “ہمیں آگاہ کیا گیا تھا کہ بسیں آپ کو لے کر جائیں گی اور واپس لے کر آئیں گی لیکن ہمیں کہیں کوئی بس نظر نہیں آئی۔”
آفریدی کے مطابق انہوں نے میچ دیکھنے کے لئے تین ہزار روپے خرچ کرکے وی آئی پی سٹینڈ کا ٹکٹ خریدا تھا لیکن جب وہ سٹیڈیم پہنچے تو ان کی سیٹ پر کوئی اور شخص بیٹھا ہوا تھا۔ “پولیس نے ہمیں ہماری سیٹوں پر بٹھانے کی بجائے سیڑھیوں پر بٹھا دیا اور کہا گیا کہ آپ کو ادھر ہی بیٹھ کر میچ دیکھنا پڑے گا۔”
انہوں نے بتایا کہ میچ دیکھنے کے لئے آنے والے کرکٹ شائقین کو سٹیڈیم کے اندر لگائے گئے سٹالز پر کھانے پینے کی اشیاء بھی انتہائی مہنگے داموں فروخت کی گئیں۔
“سٹیڈیم انتظامیہ نے جو اندر ٹھیکے دیئے ہوئے ہیں کنٹین والوں کو وہ پانی، کولڈ ڈرنکس، چپس، بسکٹ اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی مقرر نرخوں کی بجائے تین سے چار گنا قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔”
سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن فیصل آباد کے صدر جمیل سراج کے مطابق اقبال سٹیڈیم کو کسی بھی لحاظ سے عالمی معیار کا کرکٹ سٹیڈیم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
“آئی سی سی رولز کے مطابق جہاں انٹرنیشنل کرکٹ ہونی ہوتی ہے وہاں کھلاڑیوں کی رہائش کے لئے کم از کم فور سٹار ہوٹل اور سپانسرز کے لئے کم از کم 16 ہاسپٹلٹی باکسز ہونا ضروری ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے ہنگامی طور پر کھلاڑیوں کے ڈریسنگ رومز کی چھت پر پانچ عارضی ہاسپٹلٹی باکس بنائے ہیں جبکہ ایک میڈیا باکس کو بھی ختم کرکے کمنٹری باکس بنا دیا گیا جس کی وجہ سے میڈیا کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
“میڈیا والوں کو ایک باکس میں بند کر دیا گیا ہے جہاں سکولوں میں استعمال ہونے والے ڈیسک رکھے ہوئے ہیں جن پر بیٹھنے سے کمر اکڑ جاتی ہے۔ لیپ ٹاپ وغیرہ چارج کرنے کا بھی مناسب انتظام نہیں ہے، انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی سلو رہتی ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی پریس کانفرنس کے لئے بھی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا۔
“یہ دیکھ کر بڑی شرمندگی ہوئی کہ ایک انٹرنیشنل ٹیم آئی ہوئی ہے، وہیں پر کھانا ہے اور وہیں پر پریس کانفرنس ہو رہی ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 17 ہزار ہے لیکن کسی بھی میچ میں تماشائیوں کی تعداد 23، 24 ہزار سے کم ہرگز نہیں تھی “پولیس، ٹریفک وارڈنز اور سٹیڈیم کی انتظامیہ نے سینکڑوں کے حساب سے اپنے عزیز، رشتہ داروں کو بغیر ٹکٹ میچ دکھائے ہیں۔”
جمیل سراج کا ماننا ہے کہ جب تک اقبال سٹیڈیم کو پی سی بی کے کنٹرول میں نہیں دیا جائے گا یہاں پر انٹرنیشنل ٹیموں، شائقین کرکٹ اور میڈیا کے لئے سہولیات میں بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اقبال سٹیڈم میں پاکستان اور ساوتھ افریقہ کی کرکٹ ٹیموں کے مابین ہونے والی ون ڈے سیریز کی کوریج کرنے والے جیو نیوز کے رپورٹر حماد احمد نے فیصل آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت اقبال سٹیڈیم سے حاصل ہونے والی آمدن اور اس کے خرچ کی شفاف انکوائری کروائے۔
“عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ گزشتہ 17 سال میں حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدن کہاں خرچ ہوئی اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود سٹیڈیم کو اپ گریڈ کیوں نہیں کیا گیا۔”
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اقبال سٹیڈیم میں ہونے والے چیمپئن کپ میں شائقین کی بھرپور شرکت کو دیکھتے ہوئے پی سی بی کے ایگزیکٹو بورڈ نے بھی انٹرنیشنل میچز کے انعقاد سے پہلے سٹیڈیم کو اپ گریڈ کرنے پر زور دیا تھا۔
“پی سی بی اقبال سٹیڈیم کو اپ گریڈ کرکے شائقین کے لئے تمام سٹینڈز میں کرسیاں لگانے اور میچ دیکھنے کا ماحول بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ یہاں کھلاڑیوں اور آفیشلز کے قیام کے لئے اعلی معیار کا ہوٹل اور دیگر سہولیات مہیا کرنا چاہتا ہے تاکہ سکیورٹی کے لئے راستوں کی بندش سے پیدا ہونے والے مسائل کو مستقل طور پر ختم کیا جا سکے۔”
انہوں نے بتایا کہ اقبال سٹیڈیم مینجمنٹ کمیٹی صرف اس وجہ سے سٹیڈیم کا کنٹرول پی سی بی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس طرح وہ سٹیڈیم اور اس سے ملحق دکانوں، دفاتر اور دیگر کمرشل پراپرٹیز سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدن سے محروم ہو جائے گی۔
“اقبال سٹیڈیم ایک سرکاری اثاثہ ہے اس لئے سرکاری افسران پر مشتمل ایک غیر سرکاری کمیٹی کا اس پر کنٹرول سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسے پنجاب سپورٹس بورڈ یا پی سی بی کے پاس ہونا چاہیے تاکہ مالی معاملات میں شفافیت کے ساتھ ساتھ کرکٹ شائقین اور شہریوں کو درپیش مسائل ختم ہو سکیں۔”
فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر اور اقبال سٹیڈیم مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ندیم ناصر نے اس حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر پی سی بی اقبال سٹیڈیم کو اپ گریڈ کرنے کے لئے اس کا کنٹرول لینا چاہتا ہے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پی سی بی کو صوبائی حکومت سے معاملات طے کرنی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جگہ پنجاب حکومت کی ملکیت ہے۔
“میں نے خود پی سی بی کو تجویز کیا تھا کہ آپ سٹیڈیم سے ملحق جگہ پر بنے ہوئے پلے لینڈ وغیرہ کو ختم کرکے کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز کے لئے ایک فائیو سٹار ہوٹل بنائیں تاکہ شہریوں کو سکیورٹی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل ختم ہو سکیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پی سی بی اقبال سٹیڈیم میں ہونے والے میچز کی آمدنی سے انتظامیہ کو بھی شیئر دیتا تھا لیکن وہ اب بند کر دیا گیا ہے۔
“اگر پی سی بی حالیہ ون ڈے سیریز سے ہونے والی آمدن ہی اس سٹیڈیم کو اپ گریڈ کرنے پر خرچ کر دے تو اسے عالمی معیار کا سٹیڈیم بنایا جا سکتا ہے۔ہمارے پاس 20، 30 دکانیں ہیں جن سے جو ریونیو آتا ہے وہ بہت کم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان اور ساوتھ افریقہ کی حالیہ ون ڈے سیریز کے لئے ہم نے قرض لے کر سٹیڈیم کو پی سی بی کی طرف سے تجویز کئے گئے اقدامات کے مطابق تیار کیا تھا۔”
انہوں نے بتایا کہ سٹیڈیم میں موجود دکانوں سے پہلے پانچ تا چھ ہزار روپے ماہانہ رینٹ لیا جا رہا تھا جس کو حال ہی میں نیلامی کے ذریعے بڑھا کر 50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ کیا گیا ہے۔
“پلے لینڈ، سند باد اور خیام قلعہ ریسٹورنٹ جیسی بڑی کمرشل پراپرٹیز کے لیز ایگریمنٹ پرانے ہیں جنہیں ہم تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ان میں بھی کرایہ دس فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھایا جا رہا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ 2023ء سے ابتک انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر ناصرف اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کو پہلے سے بہت بہتر بنا دیا ہے بلکہ یہاں 17 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی بھی ممکن بنائی ہے جس پر وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔
انہوں نے حالیہ ون ڈے سیریز کے دوران سٹیڈیم میں بدانتظامی اور کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت میں اوورچارجنگ کے حوالے سے تماشائیوں کو درپیش مسائل کا بھی نوٹس لینے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ذمہ دار عناصر کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیا ہے۔
